بدھ‘ 25 محرم الحرام 1436ھ‘19 نومبر 2014ء
حکومت نے مہنگائی کا نوٹس لے لیا۔ اگلے دن گاجر کی قیمت 80 روپے کلو تک جا پہنچی۔
عوام تو ”خاک ہو جائینگے تم کو خبر ہونے تک“ کا راگ الاپتے الاپتے جان کنی کی حالت تک جا پہنچے ہیں۔ نوائے وقت میں شائع ہونیوالی خبروں کی بناءپر بالآخر حکومت کو ہوش آیا تو وہ بھی نوٹس لینے کی حد تک۔ اب اس نوٹس لینے کے بعد کیا ہو گا۔ وہ بھی عوام گرشتہ کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔جو حکومت بھی آتی ہے صرف نوٹس لینے کے بیانات جاری کرتی ہے اور اسکے بعد راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔
اشیائے صرف کی قیمتوں میں رمضان المبارک کی آمد کی خوشی اور احترام میں جو نان سٹاپ اضافہ ہوا وہ ہنوز واپس نیچے نہیں آ سکا۔ بلکہ اس بار تو اس اضافہ میں غیرمعینہ مدت تک استحکام کی کیفیت سے تو عوام بھی ڈر گئے ہیں کیونکہ قیمتوں میں اتنا اضافہ اور اس اضافی قیمتوں میں استحکام عوام کی صحت اور جیب کیلئے خاصہ نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ کتنی عجب بات ہے ہمارے ملک میں معاشی یا سیاسی استحکام آئے نہ آئے قیمتوں میں اضافہ مستحکم ہوتا ہے۔
اب دیکھتے ہیں حکومتی نوٹس کا اس کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ دیکھنے اور سننے میں تو یہ آ رہا ہے کہ نوٹس کے جواب میں متعدد اشیائے صرف کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ یقین نہ آئے تو ذرا بازار جا کرسبزیوں اور دالوں کے ریٹ معلوم کریں۔ قیمت سن کر ہاتھوں کے طوطے نہ اڑیں تو جو مرضی کہہ لینا۔
اب اگر حکومت کے کہنے پر کمی کی بھی گئی تو وہ مستحکم قیمت سے نیچے نہیں گرے گی۔ یوں حکمرانوں کو اُلو بنانے والے اس مافیا کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہے گا۔
٭....٭....٭....٭
مسلم لیگ ن اور جے یو آئی میں سرد مہری بڑھنے لگی۔ یہ خبر شائع ہوتے ہی وزیراعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان سے ایک گرم جوش ملاقات کر ڈالی جس کے بعد سرد مہری کی برف پگھلنے لگی ہے۔ ایم کیو ایم ہو یا جے یو آئی ان دونوں جماعتوں کا کمال یہی ہے کہ یہ زیادہ دیر روٹھے نہیں رہ سکتیں اور جیسے ہی....
ٹھہر بھی جاﺅ صنم تم کو میری قسم
ایسے لمحے بیت گئے تو آئیں گے پھر کہاں
رک بھی جاﺅ صنم تم کو میری قسم
کی آواز ان کے کانوں میں پڑتی ہے۔ یہ تُرت ہنستے مسکراتے اس آواز کی طرف چل پڑتے ہیں اور دو چار ملاقاتوں میں سارا گلہ شکوہ دور کر لیتے ہیں۔
اب جے یو آئی کو مولانا فضل الرحمان پر خودکش حملے کا رنج تھا کہ حکومت نے اس کو زیادہ سیریس نہیں لیا روایتی بیان بازی اور مذمت تک محدود رہی۔ حکومت کا خیال ہے کہ ”جان بچی سو لاکھوں پائے“ اب اس پر زیادہ شوروغل کیسا۔ ملزم تو جائے واردات پر ہی خاکستر ہو گیا اب کِسے پکڑا جائے کیونکہ ایسے حملے کرنے والے زیادہ تر اسی قبیلہ کے لوگ ہیں جن کی نگہبانی و پرورش جے یو آئی کے دوست اور سرپرست کرتے پھرتے ہیں تو پھر کیا حاصل گڑھے مردے اکھاڑنے کا۔
ہمیں تو مولانا حیدری اور حافظ حسین احمد کے مذمتی بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ شاید وہ مولانا کے بچ جانے سے بہت ناخوش ہیں۔ کیونکہ جب تک مولانا صاحب سلامت ہیں۔ ان کابار امامت سنبھالنے کا دور دور تک امکان نظر نہیں آتا۔
شاید اسی لئے وہ نہایت شدومد سے اس ناکام حملے کی مذمت کرتے ہیں۔ اس غصے سے کہ کامیاب کیوں نہ ہوا
٭....٭....٭....٭
برداشت کا عالمی دن گزشتہ روز منایا گیا۔ اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ہمارے ملک میں ضرورت ہے وہ یہی تو ہے۔ ہمارے ہاں برداشت کا کلچر ہی ختم ہو گیا ہے۔ سیاست ہو یا تجارت، دفتر ہو یا بازار جہاں چلے جائیں کیا بچہ کیا بڑا کیا جوان کیا بزرگ سب کے تیور چڑھے رہتے ہیں۔ بات بات پر آستینیں چڑھا لیتے ہیں۔
کیا زمانہ تھا جب چھوٹی موٹی باتوں پر غلطیوں پہ ایک مسکراہٹ پردہ ڈال دیتی تھی اور لوگ ” تسی لنگ جاﺅ بادشاہو! ساڈی خیر اے“ کہہ کر معاملہ رفع دفع کر دیتے تھے۔ مگر اب تو ذرا سی بات پر گالم گلوچ تو تکار شروع ہو جاتی ہے جو بالآخر ہنگامہ آرائی اور مار پیٹ پر ختم ہوتی ہے، بعض اوقات تو بقول غالب....
دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
والی حالت کے باوجود ہم دوسروں پر الزام لگا کر چڑھ دوڑتے ہیں اور اس حالت میں کئی لوگ بعد میں ٹکور کراتے پھرتے ہیںاور کئی ہسپتالوں کی زینت بنتے ہیں۔ کئی سر پھرے تو آخری آرام گاہ تک پہنچ جاتے ہیں مگر اسکے باوجود ہم برداشت کا بھولا ہوا سبق یاد نہیں کرتے جو کسی بھی معاشرے کا حسن ہوتا ہے۔
یورپ میں دیکھ لیں بڑی سے بڑی بات بھی ” سوری“ کہنے سے ختم ہو جاتی ہے اور ہمارے ہاںمعافی کا لفظ ہی داخل دشنام ہو گیا ہے ۔ اسے گالی سے برا سمجھا جاتا ہے۔
حالانکہ یہ لفظ بنا ہی معاملہ رفع دفع کرنے کیلئے ہے مگر کوئی کہنے کو تیار نہیں ہوتا یا قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ حالانکہ معافی مانگنے اور معاف کرنے سے زیادہ اچھا عمل کوئی اور نہیں ہے۔ مگر یہ بات ہمارے لوگوں کو یاد کون کرائے۔
٭....٭....٭