امریکی صدر ٹرمپ کی جرمن چانسلر سے ملاقات ٹرمپ نے ہاتھ نہیں ملایا۔
امریکی صدر ٹرمپ کی ہر ادا لاجواب ہوتی ہے۔ میڈیا ہی نہیں ساری دنیا ان کی ایک ایک ادا پر مر مٹتی ہے۔ بقول شاعر…؎
یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی
تیری اک ادا پہ نثار ہے
حضرت ٹرمپ کے ہاتھ ملانے کا انداز بھی سب سے جدا ہے۔ وہ ہاتھ کیا ملاتے ہیں فریق مخالف کی جان نکال لیتے ہیں۔ میڈیا میں ان کے پرجوش مصافحہ پر طرح طرح کے تبصرہ کئے جاتے رہے ہیں۔ غیر ملکی سربراہان مملکت سے بھی وہ اس جارحانہ انداز میں ہاتھ ملاتے ہیں کہ ایک مرتبہ تو ان غیر ملکی سربراہان کو لگ پتہ جاتا ہے کہ یہ امریکی صدر ہی نہیں امریکی طاقت کا ہاتھ ہے۔
کئی سربراہان تو بعد از مصافحہ دیر تک اپنے ہاتھ اور کاندھے ہلا کر دیکھتے ہیں کہ کہیں جوڑ تو نہیں اتر گیا۔ اب جرمنی کی چانسلر گزشتہ دنوںامریکہ کے دورے پر آئیں تو امریکی صدر نے خلاف توقع ان کو مصافحہ سے محروم رکھا۔یہ میڈیا کے تبصروں کا خوف ہے یا خاتون کا احترام‘ یہ تو اب جناب ٹرمپ ہی بتا سکتے ہیں۔ مگر اب وہی میڈیا اسے سردمہری سے تعبیر کر رہا ہے جو کل تک اس فولادی قسم کی ہتھ جوڑی پر شور مچاتا تھا اور ہتھ ہولا رکھنے کے مشورے دیتا تھا۔ کچھ ہو نہ ہو ٹرمپ جی نے دنیا کو بتا دیا کہ یہ ان کا نہیں امریکہ کا ہاتھ ہے۔ اس سے پنجہ آزمائی آسان نہیں…
٭…٭…٭…٭
بھارتی فوجی سموسے اور جلیبیاں کھا کھا کر مر رہے ہیں: برطانوی اخبار
یہ غیر ملکی اخبار والے بھی بس خبریں بنانے کے چکروں میں رہتے ہیں۔ ورنہ سموسے اور جلیبیاں کھانے سے کون مرتا ہے۔ ہاں البتہ خود بھارتی فوجی بتا رہے ہیں کہ وہ ناقص خوراک یعنی پانی جیسی پتلی دال اور جلی ہوئی خراب گندم کی روٹیوں کے باعث مر رہے ہیں جس پر میڈیا نے مودی سرکار کو خوب کوسا مگر ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ مودی سرکار صرف اور صرف دن رات مسلمانوں کو ختم کرنے‘ ان کو مارنے اور کچا چبانے کے منصوبے بناتی رہتی ہے۔ پورے بھارت میں گائے کو مارنا منع ہے مگر مسلمانوں کے قتل عام کی مکمل اجازت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث افراد کو عدالتیں بھی آزاد کر دیتی ہیں۔ مودی جی خود بھی کھانے پینے کے کاروبار سے منسلک رہے ہیں۔ امریکن صدر اوباما کو اپنے ہاتھ سے بنا کر چائے پلانے کا شرف بھی انہیں حاصل ہے۔ جس مہارت سے انہوں نے چائے بنائی اوباما بھی اس سے خاصے متاثر نظر آئے تھے۔ کہیں انکی حکومت نے فوجیوں کی خوراک کی رقم کو اپنا چائے پانی سمجھ کر تو نہیں لوٹنا شروع کر دیا۔
بدعنوانی سے انکار، مہم انتہائی کامیاب رہی: چیئرمین نیب
خدا جانے چیئرمین صاحب کو بیٹھے بٹھائے یہ رپورٹ کہاں سے مل گئی۔ یہ کس بقراط نے انہیں بتا دیا کہ مہم کامیاب ہے۔ ورنہ دیواروں پر نعرے لکھنے، بینر لگانے اور سٹکر چپکانے سے کبھی کچھ ہوا ہے۔ سچ پوچھیں تو اخبارات اور ٹی وی پر چلنے والے ’’کرپشن سے انکار‘‘ والے اشتہارات دیکھ کر تو عام پاکستانی بھی اپنی ہنسی روک نہیں پاتے تھے۔ بقول شخصے جس ادارے کی طرف سے یہ اشتہار چلتا ہے وہاں تو خود اس اشتہاری مہم پر عمل کی زیادہ ضرورت ہے۔ کیونکہ وہاں بھی کرپشن سے انکار کے برعکس ’’کرپشن سے پیار‘‘ کے نعرے پر عمل کیا جاتا ہے۔ وہ بھی اشتہاری نہیں عملی‘ حقیقی طور پر۔ یقین نہ آئے تو چیئرمین نیب ذرا اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیر کر ہی دیکھ لیں۔ ویسے بھی چیئرمین صاحب کو کون بتائے کہ اگر اشتہارات دیکھ کر لوگ کرپشن سے انکار کرنے والے ہوتے تو پھر سب سے کامیاب مہم پولیو کے قطرے اور محکمہ بہبود آبادی والوں کی ہوتی۔
مگر دیکھ لیں آج بھی بار بار مہمیں چلانے کے باوجود پولیو فری پاکستان اور بچے کم خوشحال گھرانے کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔ تو کرپشن سے انکار کون کرے گا۔ خاص طور پر وہ لوگ جن کا تو اوڑھنا بچھونا اور گزر اوقات ہی اس پر ہے۔
٭…٭…٭…٭
پانامہ لیکس فیصلے آنے کے بعد، وزیراعظم کی نااہلی پر وزیراعظم کون کی قیاس آرائیاں
دوپہر کے اخبارات کا بھی اپنا انداز ہے جن میں آج کل چودھری نثار اور احسن اقبال کو وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں نیا وزیراعظم بنانے کی قیاس آرائیاں عروج پر ہیں۔ معلوم نہیں فیصلہ آنے سے قبل یہ قیاس آرائیوں کا بازار کس نے گرم کر رکھا ہے۔ کہیں یہ بھی سٹے بازوں اور جوا کرانے والوں کا کارنامہ نہ ہو۔ جو اب احسن اقبال اور چودھری نثار میں سے وزیراعظم کون کی ٹائی پر جوا کرا رہے ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے ہاں قیاس آرائیوں اور افواہ کے زور پر اکثر پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بکئے اور جواری بھی اس موقع پر اپنا لچ تلنے میدان میں آ جاتے ہیں۔
ویسے ان خبروں کے بعد چودھری نثار اور احسن اقبال کے چہروں پر لمحہ بھر سرخی تو آ جاتی ہو گی۔ وزارت عظمیٰ کا نام ہی ایسا ہے کہ ایک بار تو بدن میں خون کی گردش تیز کر ہی دیتا ہے۔ خاص طور پر جب اچانک ہی کہیں سے سر پر ہما پرواز کرتا یا چکر لگاتا نظر آئے تو انسان ویسے ہی خود کو وزیراعظم تصور کرنے لگتا ہے۔ حقیقت میں نہ سہی تصور میں سہی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭