منگل‘ 16 ؍ محرم الحرام 1438ھ‘ 18 اکتوبر 2016ء
عمران خان کی طرف سے فی کارکن 100 روپے چندے کی اپیل!
حیرت کی بات ہے جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان جیسے نجانے کتنے ارب پتی قسم کے رہنمائوں کے باوجود تحریک انصاف پر یہ بُرا وقت آ گیا کہ خان صاحب کو دھرنا پروگرام چلانے کیلئے کارکنوں سے چندے کی اپیل کرنا پڑی۔ یہ دھرنا پروگرام کوئی نیا تو نہیں ہے پہلے بھی خان صاحب اسلام آباد اور لاہور میں اسکی کامیاب پریکٹس کر چکے ہیں، اس وقت بھی ان پر لاکھوں نہیں کروڑوں کا خرچہ آیا ہو گا۔ اب جو اسلام آباد دھرنا ہے اس کیلئے فنڈز کی قلت کیوں ہو گئی؟ کہیںسرمایہ کاری کرنیوالوں کو قبل از وقت ہی دھرنے کی ناکامی کا خوف تو دامن گیر نہیں ہو گیا اور انہوں نے دھرنا سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ ویسے بھی آجکل ہماری سیاست میں سیاستدان کم اور تاجر و صنعتکار زیادہ آ گئے ہیں جو اپنا نفع نقصان دیکھ کر ہی سرمایہ کاری کرتے ہیں اکثر ایک لگا کر 70 گنا زیادہ وصول کرنے پر یقین رکھتے ہیں مگر چلیں امید پر دنیا قائم ہے۔ خان صاحب نے یہ کچھ بھی دیکھنا تھا سو دیکھ رہے ہیں۔ لوگوں نے انکے ہسپتال کیلئے دل کھول کر عطیات دئیے تھے دیکھنا ہے اب چندے کی اپیل پر کیا کرتے ہیں۔ ویسے ہمارے سیاستدان اپنی گرہ ڈھیلی کرنے کی بجائے ہمیشہ عوام کی جیب ڈھیلی کرنے پر توجہ کیوں دیتے ہیں۔ ہے کوئی اس کا جواب ۔
٭…٭…٭…٭
کارساز شہدا کی ریلی میں پارٹی کے ترانوں پر پی پی پی کے رہنمائوں کا والہانہ رقص!
وہ کہتے ہیں نہ کہ ’’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘ اسی طرح لاکھ پابندیاں ہوں یا پہرے، رقص کرنیوالے کبھی ڈرتے نہیں۔ جو ڈرتے ہیں وہ رقص کرتے نہیں۔ ’’سانجھو بھٹو آئیو خیر ساں ہے جمالو‘‘ سے لے کر ’’دلا تیر بجاں رتی اتنی دشمناں تے جئے جئے بھٹو بے نظیر‘‘ تک کی لے پر پیپلز پارٹی کے جیالے ہمیشہ جمہوری تماشہ ہو یا آمرانہ سرکس ہر جگہ پارٹی کے ترانوں پر رقصاں رہے۔ یہ اعزاز کسی اور پارٹی کو حاصل نہیں کہ کوڑے کھاتے، پھانسی چڑھتے، خود سوزی کرتے بھی یہ جیالے رقصاں رہے مگر یہ جو شہدائے کارساز کی یاد میں ریلی نکالی گئی اس میں تو بجائے ان شہدا کو یاد کر کے انکو خراج عقیدت پیش کیا جاتا پارٹی کے جیالوں کو تو چھوڑیں انہیں رقص کا بہانہ چاہئے، رہنما بھی اور وہ بھی بڑے رہنما …؎
مجھے آئی نہ جگ سے لاج
میں اتنا زور سے ناچی آج
کہ گھنگھرو ٹوٹ گئے
کا عملی مظاہرہ بلاول صاحب کے ٹرک کی چھت پر چڑھ کر کرتے اور سیلفیاں بنواتے رہے۔ اب اس والہانہ رقص کا صلہ فوری طور پر قمر زمان کائرہ کو تو پنجاب کی صدارت کی شکل میں مل گیا باقی بھی حسب مراتب جلد ہی صلہ پائیں گے۔ اب وٹو صاحب بھی نئی تقرری کیلئے آئندہ کسی تقریب میں رقص کرنے پر غور کر رہے ہوں گے۔
نئے صوبے بنے تو ہمارا بھی بنے گا : فاروق ستار، پہلے اپنی جماعت سنبھالیں : مُراد علی شاہ!
یہ تو وہی مرغی کی ایک ٹانگ والا معاملہ نظر آتا ہے جب بھی ایم کیو ایم والوں پر کوئی کڑا وقت آئے انہیں اچانک اپنا صوبہ یاد آتا ہے۔ آج ایم کیو ایم والے لندن بھائی، ستار بھائی اور کمال بھائی کے درمیان کچھ اس طرح تقسیم ہیں جس طرح صوبہ سندھ دیہی اور شہری کوٹے میں تقسیم ہے، یہ تقسیم بھی پیپلز پارٹی کے دور میں ہوئی تھی، ایم کیو ایم اسے بھی سندھ کی تقسیم قرار دیتی ہے۔ پھر بھی پیپلز پارٹی والوں کو سندھ کی تقسیم کے بیان پر جتنی تکلیف ہوتی ہے اتنی ہی خوشی اسے سرائیکی صوبے کے قیام کے اعلان پر ہوتی ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ اپنے صوبے پر کٹ مرنے والے دوسرے صوبوں کی تقسیم پر مٹھائی بانٹتے نظر آتے ہیں۔
فاروق بھائی کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی تک نئی ایم کیو ایم نے اپنی پالیسیاں نہیں بدلیں صرف لندن والا ماسٹر بدلا ہے۔ ان کے دلوں میں آج بھی کہیں نہ کہیں اپنا صوبہ پَل رہا ہے جو شریر بچے کی طرح کبھی چادر سے منہ نکالتا ہے اور کبھی چُھپ جاتا ہے۔ ایم کیو ایم والے بھی اپنا صوبہ دوسرے صوبوں کی اوٹ میں چھپا کر کبھی کبھی باہر نکالتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
پنجاب میں ہزاروں پولیس ملازمین کو فوجی طرز پر ریٹائر کرنے کا فیصلہ!
پنجاب پولیس سے اتنے بڑے پیمانے پر وہ بھی فوجی انداز میں ملازمین کا اخراج آئی جی پنجاب نے کچھ سوچ کر ہی کیا ہو گا ورنہ ایسے فیصلوں سے تو خطرہ رہتا ہے کہ اِدھر اُدھر سے مخالفانہ گولہ باری شروع نہ ہو جائے اسی خوف سے ایسے فیصلے بروقت نہیں کئے جاتے۔ ویسے بھی پولیس والے کو چاق و چوبند ہونا چاہئے جیسے یورپ میں ہوتے ہیں جو اچھے بھی لگتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ڈھیلے ڈھالے اور موٹاپے کا شکار پولیس اہلکاروں کی تعداد اتنی ہے کہ شمار نہیں کر سکتے۔ 50 برس بعد فوج ہو یا پولیس دونوں میں کام کرنے والوں کی جگہ کم ہی بنتی ہے اس لئے پولیس والوں کی عمر میں بھی کمی کی گئی ہے کیونکہ اس عمر میں ویسے ہی بھاگ دوڑ نہیں ہو سکتی۔ ہمارے پولیس والے اسی لئے بھاگتے چور کو پکڑ نہیں سکتے۔
اب اس ریٹائرمنٹ کی تلوار کو اہل اور بے گناہ پولیس والوں کے خون سے نہ رنگا جائے۔ کام چور، نااہل، سفارشی، نکمے، رشوت خور اور ہلنے جُلنے سے معذور اہلکاروں کو گھر کی راہ دکھائی جائے۔ ویسے بھی انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اچھی خاصی پنشن ملتی ہے۔ سچی بات تو یہ بھی ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر تک آتے آتے نوے فی صد سے زیادہ پولیس والے بڑھاپے کے لئے اور اپنی اولاد کے لئے کافی کچھ بنا چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے اس اپنے من پسند محکمے کے بارے میں جو فیصلہ کرنا تھا وہ کر لیا۔ عوام تو ویسے عوام ہی ساری کی ساری پولیس ہی کی ریٹائرمنٹ کی دعائیں کرتے نظر آتے ہیں۔