ہفتہ ‘ 18 جمادی الثانی 1438 ھ‘ 18 مارچ 2017ئ
مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی کے ارکان کا افغانستان میں موجود 300گھرانوں کو مردم شماری میں شامل نہ کرنے پر واک آﺅٹ ۔
جے یو آئی حکومتی اتحادی اور مرکزی کابینہ میں بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے اصولی طور پر اس کا واک آﺅٹ کرنا جچتا نہیں مگر بہت کچھ جچنے یا نہ جچنے کے باعث چھوڑا یااپنایا نہیں جا سکتا۔ مولانا کس دور میں حکومت کے اتحادی نہیں رہے؟ جنرل مشرف کے محبوب نظر تھے مگر دنیا کےلئے اپوزیشن میں تھے۔ کشمیر کمیٹی کے صدا بہار چیئرمین ہیں مگر اسے حکومتی عنایت اور نوازش ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ کچھ پارٹیوں کے لیڈروں نے ”لائ“ کیا ہوا ہے۔ شاید حضرت نے لاءمیں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ بہت سے معاملات میں مٹھیاں بھینچ کر دانت پیش کر حکومت کو کوستے ہیں۔ حکومت بات سمجھ جاتی ہے۔ تحفظات دور کر دیتی ہے تو بند مٹھی کھل جاتی اور لبوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ حکومت بحرانوں میں پھنسی ہو تو نکالنے کےلئے ”لائ“ کام کرتا ہے۔ کہتے ہیں لا اور لا.... اور لا.... دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو مردم شماری میں شامل کرنے کا کوئی قاعدہ کوئی ضابطہ ہو گا وہی افغانستان میں مقیم تین سو خاندانوں پر بھی لاگو ہو گا۔ ”لائ“ والوں کی کیسی خواہش ہے کہ جو افغانی پاکستان میں موجود ہیں ان کو مردم شماری میں شامل کیا جائے جو پاکستانی افغانستان میں ہیں انکو بھی.... یہ تین سو خاندان وہاں کیا کر رہے ہیں۔ پاکستانی ہیں تو پاکستان آئیں۔ خواہ مخواہ جے یو آئی کو قومی اسمبلی سے بائیکاٹ کی شدید تکلیف سے گزارا جا رہا ہے۔ بات مردم شماری سے شروع ہوئی تھی۔ عملہ تو کام کر رہا ہے انسان شماری کے ساتھ حیوان شماری بھی کیوں نہ کر لی جائے۔ شجر شماری کا مشورہ نہیں دیا جا سکتا۔ یہ سمندر کی لہریں گننے والی بات ہو گی تاہم موبائل فون، ٹی وی، فریج اور اے سیز کے اعداد و شمار مردم شماری کے دوران اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ گھوسٹ سکولوں اور ہسپتالوں کا کھوج بھی لگایا جا سکتا ہے اور خدا لگتی کہئے تو کئی خفیہ بیگمات کا بھی کھوج لگایا جا سکتا ہے۔
٭....٭....٭....٭
اداکارہ جیکولین فرننڈس ممبئی میں اپنا ریسٹورنٹ کھولیں گی
جیکولین سری لنکا سے تعلق رکھتی ہیں۔ مس سری لنکا یونیورس رہ چکی ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کر رکھا ہے۔ سکول ماسٹر یا ٹیلر ماسٹر نہیں کر رکھا‘ ایم اے پاس کیا ہوا ہے۔ جیکولین کے مداحوں پر ریسٹورنٹ کھولنے کی خبر بجلی بن کر گری۔ کئی کہتے سنے گئے کہ فلموں سے انہیں عزت کی روٹی مل رہی تھی تو ریسٹورنٹ کی کیا ضرورت ہے۔ جیکولین اپنے مداحوں کے یہ کہہ کر دل بڑھائے کہ وہ اداکاری کو چھوڑ نہیں رہی۔ ذریعہ روزگار وہی رہے گا یہ تو پارٹ ٹائم ہو گا۔ وہ جہاں ریسٹورنٹ کھول رہی ہیں، وہاں سے دیگر ریسٹورنٹ مالکان کوچ کر رہے ہیں۔ جیکولین اور انکے ریسٹورنٹ کے مقابلے میں کسی اور کی کیا اوقات ہو گی جس دن جیکولین وہاں آئےگی تو گاہک آئینگے، کھانا منگوائیں گے اور بغیر کھائے بل ادا کرکے چلے جائینگے۔ انڈیا میں کرکٹ کے کھلاڑیوں اور فنکاروں کو دیوتاﺅں دیویوں کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں منافقت کا عنصر نکال دیا جائے تو اداکاراﺅں کو پارسائی کا دعویٰ کرنیوالے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں یہ الگ بات ہے فتوے اسکے برعکس دیتے ہیں مگر اپنی پسندیدہ اداﺅں سے دل لبھانے والی اداکاراﺅں کی عزت کی روٹی کمانے اور کھانے کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوئے۔ بہرحال ایک خوبی تو ہمارے اکثر کھلاڑیوں اور فنکاروں میں ہے کہ اپنا فن فروخت کرنے کسی دوسرے ملک نہیں جاتے۔ وہاں جا کر ریسٹورنٹ نہیں کھولتے۔ انڈیا سری لنکا کو بھی پاکستان کی طرح ہی اپنا حریف سمجھتا ہے۔ پہلے جیکولین عزت کی دو روٹیاں کھاتی تھی اب چار کھا لیا کرے گی۔
٭....٭....٭....٭
قومی اسمبلی ارکان کی خوش گپیاں‘ قہقہوں کی آواز ضرورت سے زیادہ بلند ہوگئی جبکہ پنجاب اسمبلی کے سرکاری ارکان نے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کردیا۔
قہقہوں اور خوش گپیوں کی محفلیں فارغ البال سجایا کرتے ہیں۔ایوانوں میں تو منتخب نمائندوں کو قوم کی قسمت سنوارنے اور انکے مسائل حل کرنے کی فکر لاحق ہوتی ہے مگر یہ کیا! ہمارے ایوانوں میں یا تو خوش گپیاں ہوتی ہیں یا وہ پہلوانوں کا اکھاڑا بنے نظر آتے ہیں۔ مجال ہے کہ قومی یا عوامی مفاد میں کوئی ایسا کام ہوسکے جس پر قوم انہیں منتخب کرنے پر فخر محسوس کرسکے۔ نمائندگان عوامی جھنجھٹ‘ مسائل کے حل کی فکر کو کچھ دیر بھلانے کیلئے اگر خوش گپیوں کا اہتمام کرلیں تو کوئی مضائقہ نہیں‘ لیکن کسی مسئلے کے حل کیلئے بلایا گیا پورا اجلاس ہی اسکی نذر کردیا جائے تو یہ بھی مناسب نہیں۔کہتے ہیں کہ ہر مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں ایک حکومتی خاتون نے سرکاری رکن ابوحفص غیاث الدین کے ذریعے ارکان کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرڈالا‘ جس پر سب ارکان نے خوشی سے ڈیسکوں کو زور سے پیٹ ڈالا‘ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ذاتی مفاد کیلئے اس ہجوم سے کوئی لاغر ہاتھی بھی اٹھ کھڑا ہو تو اسکے پاﺅں میں سب کا پاﺅں شامل ہوجاتا ہے۔ اس میں نہ تو کسی کے تحفظات ہوتے ہیں اور نہ ہی واک آﺅٹ کی نوبت آتی ہے کیونکہ ہمارے ایوانوں میں مشاہرے کے معاملے میں مشاورت نہیں ہوا کرتی۔
٭....٭....٭....٭
”الفاظ پر شرمندہ ہوں“ جاوید لطیف نے قومی اسمبلی میں مراد سعید کی فیملی سے معافی مانگ لی۔
”سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا“ لطیف صاحب اگر پہلے ہی لطیف زبان استعمال کرلیتے تو دنیا کے سامنے یوں لطیفہ نہ بنتے۔ چلیں اچھی بات ہے دو قومی نمائندگان کے گلے شکوے دور ہوگئے ۔ انسان وہی بہادر ہوتا ہے جو غلطی تسلیم کرکے معذرت کرلے۔ رکن اسمبلی شاہ جی گل کے بقول معاملہ جرگے نے حل کیا ‘ سپیکر قومی اسمبلی نے دو روز قبل ایک جرگہ تشکیل دیا تھا۔ ظاہر ہے ایسے ’ ’جھگڑوں“ کے فیصلے ایوانوں میں نہیں جرگوں میں ہوا کرتے ہیں۔ کاش کوئی ایسا جرگہ بھی تشکیل دیا جاسکے جو کالاباغ ڈیم سمیت قومی مفاد کے فیصلے بھی آناً فاناً کردے اور اس ملک کو مسائلستان سے نکال کر قائد کا اصل پاکستان بنادے۔ اس وقت پانامہ کیس سے ملک میں ہیجانی کیفیت بپا ہے۔ یہ معاملہ بھی ایوانی جرگے میں رکھا جا سکتا ہے۔ بہرحال ہماری نمائندگان سے گزارش ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا ہی نہ کیا کریں جو جھگڑے کی نوبت لاتے ہیں جس کا آخری حل معافی تلافی پر منتج ہوتا ہے اور انہیں قوم کے سامنے شرمندگی الگ اٹھانا پڑتی ہے۔