اتوار ‘ 22 رمضان المبارک ‘ 1438ھ‘ 18 جون 2017ء
چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان آج بھارت سے ٹکرائے گا
آج کھیل کا میدان سجے گا یا جنگ کا یہ تو ہر کوئی جانتا ہے۔ بھارت کیساتھ جب بھی مقابلہ ہو۔ کھیل کے میدان میں یا جنگ کے میدان میں لہو گرما جاتا ہے۔ دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔ کروڑوں پاکستانیوں کی نظر ایک ایک گیند پر اور ایک ایک شاٹ پر ہوتی ہے۔ پل پل سانسیں کبھی اوپر اور کبھی نیچے ہوتی ہیں۔ اب ایک بار پھر انگلینڈ میں دو روایتی متحارب چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں آمنے سامنے ہوں گے۔ ڈاکٹرز حضرات ایسے موقعوں پر وہی بات کہتے ہیں جو عید قربان پر کہی جاتی ہے کہ دل کے مریض شوگر کے مریض گردوں کے مریض گوشت کھانے میں احتیاط سے کام لیں۔ اس طرح ایسے مقابلے میں دل اور بلڈ پریشر کے مریضوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ احتیاطاً میچ نہ دیکھیں کیونکہ زیادہ جذباتی ہونے کی صورت میں ان کی جان ناتواں کو کوئی گزند پہنچ سکتی ہے۔ یہ مشورہ تو گھروں میں بیٹھ کر میچ دیکھنے والوں کیلئے ہے۔ ذرا گراﺅنڈ میں بھی کبھی نظر ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ ہزاروں جوان مرد و عورتیں بچے اور بزرگ کس طرح یہ میچ دیکھتے اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان کا کیا حال ہو گا۔ ٹیم چاہے سارے میچ ہارے مگر اس کا بھارت سے ہارنا کسی کو قبول نہیں ہوتا۔ ہمارے کھلاڑی بھی پرامید ہیں‘ قوم کی دعائیں انکے ساتھ ہیں۔ سب چاہتے ہیں کہ عید کی خوشیاں دوبالا ہوں اور ہماری کرکٹ ٹیم چیمپئنز ٹرافی جیت کر انہیں عید کا تحفہ دے۔ اسکے باوجود ہم یہی کہیں گے کہ کھیل کھیل ہوتا ہے۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے اس لئے پوری قوم اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرے۔ یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ پہلی مرتبہ پاکستان اس ٹرافی کے عالمی مقابلے کے فائنل میں پہنچا ہے۔ جب یہاں تک آ گئے ہیں تو انشاءاللہ میچ جیت کر ٹرافی لا کر بھی دکھا سکتے ہیں۔
....٭....٭....٭....٭....
مشرف کا شجاعت کو فون، سیاسی اتحاد پر تبادلہ خیال
یہ دونوں پرانے اتحادیوں کو ایسی کیا ضرورت محسوس ہوئی کہ ایک بار پھر سیاسی اتحاد پر تبادلہ خیال کریں۔ یہ تو ہمیشہ سے یک جسم و دو جاں تھے۔ یہ تو بس ذرا مشرف صاحب کی حکومت ختم ہو گئی ورنہ اگر وہ حکمران ہوتے تو انکی حیاتی میں یہ دونوں پارٹیوں کا اتحاد کبھی ختم نہ ہوتا۔ جب تک مشرف حکمران تھے وڈے چودھری اور نکے چودھری دونوں انکے دائیں بائیں کھڑے ہو کر انکے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یوں اظہار یکجہتی کرتے تھے کہ دیکھنے والے انکے یوں باہم ”شیرو شکر“ ہونے پر رشک کرتے تھے۔ مگر جونہی مشرف کرسی سے الگ ہوئے انکی چودھریوں سے جاری، تابعداری، بھی
”لائی بے قدراں نال یاری تے ٹٹ گئی تڑک کرکے“
والی مثال بن گئی۔ چودھریوں نے آصف زرداری کی شکل میں نیا سیاسی ہم سفر ڈھونڈ لیا۔ اسی غم میں مشرف صاحب کو اپنی مسلم لیگ بنانا پڑی۔ اب یہ دونوں مسلم لیگیں مل کر دیکھتے ہیں کون سا نیا چن چڑھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ فی الحال چودھری صاحب ایک طرف شیخ رشید والی مسلم لیگ کو بھی گلے سے لگائے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی والوں کو اتحاد کا یقین دلا رہے ہیں۔ عمران خان کو بھی ”جپھا“ کےلئے بے قرار ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی چودھری گھیرنے کے چکر میں ہیں۔ اب مشرف صاحب نے بھی سیاسی اتحاد کےلئے جو ڈول ڈالا ہے اسکے بعد تو لگتا ہے جلد ہی....
بھان متی نے کنبہ جوڑا
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا
والا اتحاد جلد وجود میں آ سکتا ہے۔۔
....٭....٭....٭....٭....
بلاول زرداری کیلئے عید پر خصوصی پشاوری چپل کا تحفہ
اگرچہ پشاور والوں کو یہ اعتراض رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے نوجوان قائد نے جب سے پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔ وہ کم کم ہی پشاور کا رخ کرتے ہیں۔ حالانکہ پشاور پھولوں کا شہر ہے۔ اگر بلاول صاحب یہاں روز روز بھی آئیں تو یہاں کے باسی جو پھولوں اور خوشبو کے شیدائی ہیں انہیں ہمیشہ پھولوں اور خوشبو میں تولتے رہیں گے۔ روایتی لوک گانوں میں آج بھی لوگ پشاور جانے والوں سے
تازہ گلاب لانا میرے واسطے صنم
طوبیٰ کی سرزمیں سے جوڑا زری کا ہونا
لانا سجا کے ڈالی میرے چمن کے مالی
کی فرمائش کرتے ہیں یا پھر انہیں ”میری خاطر پشاور سے دنداسہ لانا میرے گل خان“ کہہ کر فرمائش یاد کراتے ہیں۔ اب شاید وقت بدل گیا یا لوگوں کا معیار بدل گیا کہ پھول و خوشبو کی بجائے پشاوری چپل کو زیادہ پسند کیا جانے لگا ہے۔ اس کا سہرا کسی حد تک عمران خان کے سر جاتا ہے کہ وہ عام طور پر پشاوری چپل استعمال کرتے ہیں اور اس چپل کا تحفہ انہیں انکے پرستار دیتے رہتے ہیں۔ اب بلاول بھی جوان ہیں ان پر تو یہ پشاوری چپل زیادہ سجے گی کیونکہ وہ قمیض شلوار میں خوب جچتے ہیں۔ ویسے بھی روایتی لباس اور چپل کی اپنی شان ہوتی ہے۔ ووٹر بھی ان سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ بلاول جی بھی اپنے نانا سے سبق سیکھیں جو گریبان کھول کر آستینیں چڑھا کر عوامی سوٹ پہن کر عوام کے سامنے آتے تو سارا جلسہ لوٹ لیتے۔
....٭....٭....٭....٭....
آپ سول سرونٹ ہیں بادشاہ نہیں: سنیٹر عثمان کاکڑ کی چیئرمین این ایچ اے سے تلخ کلامی
عثمان صاحب کو اتنا غصہ بھی نہیں کرنا چاہئے۔ ان کی بات لاکھ درست سہی۔ اس سے کسی کو انکار بھی نہیں کہ بیوروکریٹ عوام کا خادم ہوتا ہے اس لئے اسے سول سرونٹ کہا جاتا ہے مگر یہ صرف کتابوں کی حد تک لکھا ہوا درست معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت میں یہ انگریزوں کے جانے کے بعد انکی چھوڑی ”کالے گوروں“ کی وہ فوج ظفر موج ہے جن کے لباس سفید ضرور ہوتے ہیں مگر انکے اندر وہی انگریزوں والا فرعونی صفت کالا دل ہوتا ہے۔ چلئے کچھ رعایت کرتے ہیں سب ایسے نہیں ہوتے۔ کچھ سفید دل والے بھی ہوتے ہیں۔ اب سینیٹر عثمان کو فکر کرنی چاہئے کہ ان کی اس کڑی تنقید کے بعد اگر کبھی حکمرانوں کی طرح کسی کیس میں انہیں کسی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا پڑا تو یہ بیوروکریٹ جو کینہ پروری کی صفت میں یکتا ہوتے ہیں ان کے ساتھ کیا برتاﺅ کرینگے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے خادموں نے خود کو بادشاہ سمجھنا شروع کر لیا ہے کیا سیاستدان کیا بیوروکریٹ سب بنے بیٹھے خدا ہیں۔ این ایچ اے کے چیئرمین نے سینیٹر عثمان سے کہا ہے کہ اگر انکے پاس کوئی ثبوت ہے تو عدالت میں لے کر جائیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کو اپنے پر بھروسہ ہے۔ تو پھر وہ سینیٹ میں مطلوب معلومات اور بلوچستان میں سڑکوں کی تعمیر کے اخراجات، ٹھیکیداروں کو اضافی ادائیگیوں کے سوالات پر مطمئن کر دیں۔ یوں بادشاہ بادشاہ کا کھیل خود بخود ختم ہو جائے مگر لگتا ہے یہاں کوئی بھی خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتا تو غلطی کون تسلیم کرے گا۔
....٭....٭....٭....٭....٭....