ہفتہ ‘ 20 جمادی الاوّل 1438 ھ ‘18 فروری 2017ئ
وضو کے بغیر نماز‘ دو کاروں میں بارود بھردیا گیا‘ لگتا ہے دہشتگردوں نے الرٹ جاری کرنیوالوں کے سامنے بھرا۔ صلاح الدین ترمذی کے بیان پر ایوان بالا میں قہقہے۔
ترمذی صاحب کے اس تمسخر اڑانے پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ موصوف کو اتنا بھی علم نہیں کہ خفیہ ایجنسی کے لوگ صرف انتظامیہ کو اطلاع دے سکتے ہیں‘ باقی کام تو انتظامیہ کا ہے کہ وہ ان دہشتگردوں کا تعاقب کرے۔ اگر ایجنسی والوں نے ہی پکڑ دھکڑ شروع کردی تو پھر وہ خفیہ کہاں رہیں گے۔ ترمذی صاحب نے اعتراض کرتے ہوئے فرمایا کہ قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمینوں اور دوسرے ارکان کو انٹرنز مہیا کئے گئے ہیں جس سے انکی کارکردگی بہتر ہوئی ہے۔ لیکن سینٹ کے ارکان کو یہ سہولت نہیں دی جارہی۔ ہمارے ساتھ وہی کیاجارہا ہے جو ایک امیر آدمی نے دیہاتی کے ساتھ کیا۔ اس نے دیہاتی سے کہا کہ وہ چالیس روز باقاعدگی سے نماز ادا کریگا تو وہ اسے ایک بھینس دیگا۔ چالیس دن کے بعد دیہاتی نے بھینس کا مطالبہ کیا جس پر امیر آدمی نے کہا میں نے تمہیں نمازی بنانے کیلئے بھینس دینے کا وعدہ کیا تھا‘ اب تم نمازی بن گئے ہو‘ اچھا ہوا۔ اس پر دیہاتی نے کہا‘ تم بھینس نہیں دے رہے تو نہ دو‘ میں نے بھی وضو کے بغیر نمازیں پڑھی ہیں۔ ترمذی صاحب کی طرح ہمارے منتخب نمائندوں کو بھی اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کا احساس ہوتا رہتا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ امیر آدمی کی طرح وہ بھی قوم سے انکے کام کرنے کا وعدہ کرکے ایوان میں پہنچے ہیں۔ بے چارے عوام ٹھہرے بھولے بھالے‘ انہوں نے تو نیک نیتی اور یقین کے ساتھ انہیں ایوانوں تک پہنچا دیا‘ جہاں پہنچ کر وہ عوام کےساتھ ہونیوالی زیادتیوں کا ازالہ کرنا بھول جاتے ہیں اور اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کا رونا شروع کردیتے ہیں۔ یہ عوام کی معصومیت کہہ لیجئے یا بے وقوفی‘ اپنے قیمتی ووٹ سے نمائندوں کو ایوانوں میں بھیج کر انکی امامت میں ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے ‘ بے چارے یہ نہیں جانتے کہ انکے یہ امام وضو تو کجا‘ غسل سے بھی مبرا نظر آتے ہیں اس لئے وہ نیک نیتی سے کوئی کام کیسے کرینگے؟
٭....٭....٭....٭
گوجرانوالہ کے پہلوان نے پولیس اہلکاروں کی درگت بنا دی
جب شہر ہو پہلوانوں کا‘ کھابہ ہو چڑوں کا تو گرما گرمی کرنے سے پہلے پولیس والوں کو دائیں بائیں ضرور دیکھ لینا چاہئیے۔ ضروری نہیں کہ سب لوگ خاموشی سے پولیس کی مار کھانے والے ہی ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی ہتھ چھٹ یا سر پھرا ایسا بھی ہو جیسا گزشتہ روز چڑے ماروں کے شہر میں سامنے آیا اور ایک دو نہیں پورے تین پولیس والوں کو تین کا پہاڑا یاد کرا گیا۔ ایسے مکے اور دھوبی پٹڑا تو پولیس والوں کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہو گا جو اس پہلوان نے سرعام سڑک پر ریسلنگ کے دوران استعمال کیا۔ کیا غضب کی پھرتی تھی داﺅ پیچ تھے۔ اگرچہ مرد میدان چاہتا تو منٹوں میں یہ جاوہ جافرار ہو سکتا تھا مگر لگتا ہے اس کی غیرت نے یہ گوارہ نہیںکیا اور وہ میدان میں ڈٹ گیا۔ انجام کار بے شک اسے ان تین پولیس والوں نے مل کر پچھاڑ دیا اور خوب رگیدا مگر مقابلہ دیکھنے والے پہلوان کی جی داری پر دیر تک رطب اللسان رہے۔
وجہ تنازعہ جو بھی ہو اب تھانے میں جب ”آجا مورے بالما“ کی دھن پر چھترول کا سین چلے گا تو شاید پہلوان کو اپنا اکھاڑہ بھی بھول جائیگا۔ کیونکہ اکھاڑے میں تھک کر آدمی بیٹھ سکتا ہے۔ ”آجامورے بالما“ کی چھترول کے بعد تو منظر کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ یہ شکست خوردہ تین پولیس والے بھی آخر اپنے اپنے دل کا غبار تو نکالیں گے ہی ناں۔
٭....٭....٭....٭....٭
موذی امراض کی شناخت کیلئے چپ پر تجربہ۔
ہماری نااہلی سمجھ لیجئے یا کم علمی یا خواتین سے محبت کی انتہائ۔ چِپ کو چُپ پڑھ گئے اور فوراً خیال خواتین کی صحت کی طرف جا پہنچا کہ اگر موذی مرض کا علاج چپ رہنے میں ہے تو ہماری خواتین کا کیا بنے گا؟ لیکن جب خبر کی تفصیل میں گئے تو پتہ چلا کہ وہ لفظ chip تھا جس سے موذی امراض کی شناخت میں مدد مل سکے گی۔ یہ انتہائی فخر کی بات ہے کہ یہ تجربہ سٹینفرڈ یونیورسٹی میں شعبہ تحقیق سے وابستہ مسلمان سائنس دان رحیم اسفند اور انکے ساتھیوں نے کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چپ کے ذریعے کینسر‘ ٹی بی‘ ملیریا جیسی بیماریوں کی خود ہی تشخیص کی جاسکتی ہے۔ دنیا میں جوں جوں ترقی ہورہی ہے‘ انسان کیلئے آسانیاں پیدا ہوتی جارہی ہیں۔ اب ایک شخص اس چپ کے ذریعے اپنے مرض کی شناخت کریگا اور میڈیکل سٹور سے دوا خرید کر خود ہی علاج کرلے گا۔ چلیں اس طرح کم از کم مہنگے ڈاکٹروں سے تو جان چھوٹ جائیگی۔ باباوینجا نامی ایک خاتون کی پیشین گوئی کےمطابق 2050 میں انسان اپنے اعضاءخود بنالیا کریگا۔ اگر انکی اس بات پر یقین کرلیا جائے تو 2050 میں دنیا سے بدصورتی ختم ہو جائیگی‘ ظاہر ہے لوگ اپنے ہاتھ پاﺅں بےشک معذور رہنے دینگے‘ سب سے پہلے اپنے چہرے خوبصورت بنائینگے جبکہ خواتین کے تو کیا کہنے‘ وہ خود کہہ اٹھیں گی.... ”یہ میں ہوں یا فلک سے اتر آئی کوئی حور“۔
٭....٭....٭....٭....٭
کراچی واٹر بورڈ میں کروڑوں کی خورد برد کا انکشاف
ظاہر ہے یہ کراچی کو کربلا بنانے کی سازش ایک دن میں تو نہیں تیار ہوئی ہو گی۔ عرصہ دراز سے اس قحط آب کے منصوبے پر جی جان سے عمل ہو رہا تھا۔ پی پی پی، ایم کیو ایم دونوں اس میں برابر کے شریک ہیں۔ کیونکہ یہی دونوں کراچی پر حکومت کرتے رہے۔ اپنے بندوں کو نوازتے رہے ہر جگہ نہلے پر دہلا موجود ہے جن کا کام صرف نوٹ کمانا ہے۔ مفت تنخواہیں لینا اور سرکاری فنڈز کھا جانا ہے۔ کراچی میں بدقسمتی سے پانی کی قلت ایک مسئلہ تو تھی ہی مگر اس ایک مسئلے سے سینکڑوں لوگوں نے اپنے مسئلے حل کر لئے خوب مال پانی کما لیا۔ کروڑوں لوگ البتہ آج بھی انہی کرپٹ لوگوں کی بدولت پانی پانی کی دہائی دیتے پھرتے ہیں۔ سچ کہا جاتا ہے کہ کراچی میں خون سستا اور پانی مہنگا ہے۔ کیا حکومت سندھ اور کراچی کی انتظامیہ واٹر بورڈ والوں کی اس لوٹ مار سے باخبر نہیں تھی یا وہ بھی اپنا حصہ لیکر خاموشی سے تماشہ دیکھتے رہے کہ لوگ کیسے پانی کیلئے بستی بن کوچہ کوچہ خوار ہوتے پھرتے ہیں۔ یہ حکمرانوں کی مہربانی ہے کراچی میں واٹر مافیا پیدا ہوا اور غریب لوگ مہنگے داموں مفت ملنے والا پانی خرید کر لینے پر مجبور ہوتے گئے۔ اب خدا کرے یہ پانی فروخت کرنیوالے یزیدی کاروبار کرنیوالے بے نقاب ہوں اور عوام کو تھوڑا ہی سہی مگر پینے کا مفت پانی روزانہ دستیاب ہو....