جمعة المبارک‘ 25 ذوالقعد 1438ھ‘ 18 اگست 2017
ہائی کورٹ کا نیب کو سندھ میں کام جاری رکھنے کا حکم۔
ابھی سندھ کے افسران اور وزرا کے چہروں پر پھیلی مسکراہٹ مدھم بھی نہیں ہوئی تھی کہ سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے نے ان کے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ سندھ اسمبلی نے بڑے طمطراق کے ساتھ نیب کا بوریا بستر گول کر کے اپنی طرف سے اسے دیس نکالا دے دیا تھا۔ مگر اب ہائی کورٹ نے انہیں کام جاری رکھنے کا حکم ناگہانی دے کر بہت سے چہروں سے مسکراہٹ چھین لی ہے۔ صرف یہی نہیں عدالت نے احتساب آرڈیننس کے خاتمے کے بل کی منظوری دینے والے ارکان اسمبلی کی فہرست بھی طلب کی ہے۔ صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا‘ جن ارکان اسمبلی اور سرکاری افسران کے خلاف نیب میں کیس زیرسماعت ہیں ان کے نام بھی طلب کر لئے ہیں۔ اب بھلا اس کے بعد باقی رہ ہی کیا جاتا ہے مسکرانے کے لئے۔
اب دیکھتے ہیں سندھ اسمبلی ممبران اور سرکاری افسران اس فیصلے کے بعد کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ ویسے اس موقع پر ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ ”ایک شخص کسی دوسرے سے پوچھنے لگا کہ یار اگر تم جنگل سے گزر رہے ہو اور سامنے سے شیر آ جائے تو تم کیا کرو گے۔ وہ شخص کہنے لگا بادشاہو پھر جو کچھ کرنا ہے شیر نے کرنا ہے بھلا میں کیا کر سکتا ہوں“ اب دیکھتے ہیں شیر کیا کرتا ہے۔ آج کل ویسے بھی لگتا ہے سیاستدانوں کے ستارے گردش میں ہیں۔ تو پھر ”ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا“
٭٭٭٭٭٭
مکی آرتھر نے گالیاں دیں: عمر اکمل‘ الزام بے بنیاد ہے: کوچ
ہمارے پیارے راج دلارے کرکٹروں کے تو نخرے ہی بہت ہیں۔ انکی نازک مزاجی کا بھی کوئی جواب نہیں خاص طور پر بعض کرکٹر تو اپنی نازک مزاجی اور تنک مزاجی کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ آئے روز ان کے حوالے سے خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں ان میں سے ایک ہمارے عمر اکمل بھی ہیں۔ اچھا کھلاڑی ہونا اپنی جگہ‘ اپنی شہرت کا اپنے نام کا گھمنڈ البتہ اچھا نہیں مگر کیا مجال ہے جو کوئی یہ بات انہیں سمجھا سکے۔ یہ لاڈلے کرکٹر تو خود کو ہر طرح کی پابندی سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مزاج ہی نیچے نہیں آتے۔ ان کو ۔
ہمارے کوچ اگر پیار محبت سے سمجھانے کے بجائے سخت رویہ اپنائیں گے تو ظاہر ہے معاملہ تو بگڑے گا ہی۔ اب یہی صورتحال عمر اکمل اور مکی آرتھر کے درمیان بھی پیش آئی ہے۔ اب اس بات کی حقیقت سے تو وہی واقف ہوں گے جنہوں نے یہ تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا اور کانوں سے سنا ہوگامگر بقول عمر اکمل سینئر کرکٹر بھی وہاں موجود تھے۔ اب یہ لوگ....
ہم بھی وہاں موجود تھے ہم سے بھی وہ پوچھا کئے
ہم چپ رہے ہم ہنس دیئے منظور تھا پردہ تیرا
کہہ کر معاملے پر مٹی ڈالنے کی پالیسی پر عمل پیرا نہ ہوں تو بہتر ہے۔ جس کی بھی غلطی ہے کوچ ہو یا کرکٹر کسی سے بھی رعایت نہ برتی جائے۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کا ہی بتنگڑ بنتا ہے جو بعد میں اختلافات اور سازشوں کو جنم دیتا ہے۔ مگر اس طرح سب کے سامنے گند اچھالنا بڑے شرم کی بات ہے۔
٭٭٭٭٭٭
مولانا فضل الرحمن کی جاتی امرا میں میاں نوازشریف سے ملاقات
بہت سوں نے ساتھ چھوڑا۔ کئی نے نگاہیں پھیر لیں۔ مگر وہ کہتے ہیں ناں۔ دوست بگلے کی طرح نہیں ہونا چاہئے کہ تالاب کا پانی سوکھنے پر اڑ جائے۔ دوست کنول کے پھول کی طرح ہونا چاہئے کہ پانی سوکھنے کے بعد خود بھی وہیں سوکھ جاتا ہے۔ اب اور کسی کی بات ہو نہ ہو میاں نوازشریف کی کوچہ اقتدار سے رخصتی کے بعد بہت سے لوگ ان کے ارد گرد اس طرح نظر نہیں آتے جس طرح ان کے تخت پر جلوہ افروز ہوتے وقت ان کے ارد گرد نظر آتے ہیں۔ مگر مولانا فضل الرحمن کی تو بات ہی نرالی ہے۔ انہوں نے واقعی لگتا ہے دوستی نبھانے کی ٹھان لی ہے۔جبھی تومولانا گذشتہ روز جاتی امرا میں میاں صاحب سے ملنے گئے۔ ظاہر ہے کچھ راز و نیاز کی باتیں بھی ہوئی ہوں گی۔ سیاسی معاملات بھی زیربحث آئے ہوں گے۔ ویسے بھی مولانا باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں ان کے پاس بہت سے مسائل کا شافی علاج موجود رہتا ہے۔ اس بہانے چلیں کچھ دیر میاں نوازشریف کا دل بھی بہل گیا ہو گا۔ ویسے بھی فراغت کے لمحات میں یاران دیرینہ کا ملنا کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ ورنہ
”شام ہوتی ہے تو سایہ بھی چھوٹ جاتا ہے“
اب میاں صاحب کے باقی ہم نشیں اتحادی خاص طور پر محمود خان اچکزئی‘ اور حاصل بزنجو بھی دل بڑا کر کے کبھی کبھی جاتی امرا کا چکر لگا لیا کریں تو وفاداری بشرط استواری کا تسلسل برقرار رہ پائے گا۔
٭٭٭٭٭٭
پاکستان عوامی تحریک خواتین کا مال روڈ پر دھرنا رات 10 بجے ختم
مولانا طاہر القادری کے گزشتہ گرجنے برسنے والے بیان سے تو لگ رہا تھا کہ ان کا مجوزہ خواتین کا یہ دھرنا کہیں زیادہ طوالت نہ پکڑ لے۔ مگر عدالت کے حکم نے اس دھرنے کا دورانیہ خاصہ مختصر کر دیا۔ یوں مال روڈ سیاسی جنگ کا میدان بننے سے بچ گئی۔ اب اگر ایسا مستقل ہو تو بہت سے لوگوں کا بھلا ہو گا۔ عوام خجل خوار ہونے سے بچ جائیں گے۔ معلوم نہیں کیوں جب جلسہ جلوس اور دھرنے کے لئے ناصر باغ اور عتیق سٹیڈیم مخصوص کر دیئے گئے ہیں تو یہ ہر ایک جماعت اور تنظیم کیوں مال روڈ کو ہی تختہ مشق بنانے پر تُلی رہتی ہے۔ بہرحال مولانا طاہر القادری نے اعلان تو خواتین کے دھرنے کا کیا تھا مگر اس میں نجانے کیوں تحریک انصاف کے مرد رہنما اور شیخ رشید بھی رونق افروز نظر آئے۔ کیا انہیں بھی صف نسواں میں شامل سمجھا گیا تھا۔ جب متاثرین خاندان کی خواتین کے ساتھ ان کے ساتھ مرد حضرات کو دھرنے میں آنے کی جرا¿ت نہیں ہوتی تو ان مرد حضرات کا یہاں کیا کام۔ کیا دھرنے میں شریک خواتین میں سے کسی نے مولانا طاہر القادری سے نہیں پوچھا کہ یہ حضرات معلوم نہیں باسٹھ تریسٹھ پر پورے اترتے ہیں یا نہیں کہ انہیں باپردہ خواتین کے دھرنے میں آنے کیوں دیا گیا۔ بہتر یہ بھی ہوا کہ عدالتی حکم کے باعث مولانا نے تقریر بھی کم از کم وقت میں مکمل کی ورنہ وہ دو تین گھنٹے کی سکت رکھتے ہیں پھر بھی انہوں نے جلد ہی آئندہ دھرنوں کا اعلان کر کے اجازت لی۔کیا معلوم انہیں واپس کینیڈا جانے کی جلدی ہو کیونکہ وہ زیادہ دن اپنے نئے وطن سے دور نہیں رہ سکتے۔
٭٭٭٭٭٭