زرداری شکل سے ڈاکو لگتا ہے: عمران خان کی پھبتی۔ عمران خان صاحب آپ کا چہرہ کیسا لگتا ہے‘ بچوں سے پوچھیں: زرداری
کیسے کیسے چندے آفتاب‘ چندے ماہتاب قسم کے چہرے اس سیاست میں آکر بے توقیر ہو گئے۔ وہ جنہیں کبھی چاند کہہ کر پکارا جاتا تھا‘ اب انہیں چور اور ڈاکو سے تشبیہ دی جانے لگی ہے۔ بزرگوں نے ایک دوسرے کے نام بگاڑنے سے منع کیا ہے مگر یہاں تو شکل تک بگاڑی جا رہی ہے۔ آصف زرداری اور عمران خان ایک دوسرے سے زیادہ بڑے نہیں‘ بس یہی کوئی دو چار سال کا آگے پیچھے کا فرق ہوگا۔ دونوں خیر سے 62‘ 63 کی دہلیز پار کر چکے ہیں۔ آئین والی باسٹھ تریسٹھ نہیں۔ اگر یہ لوگ آج اپنے بچوں کی شادیاں کر دیں تو سال بعد نانا یا دادا بن چکے ہونگے۔ اتنی عمر کے باوجود انہیں عقل نہیں آئی کہ ایک دوسرے کو مخاطب کیسے کرنا ہے۔ سیاست اور اخلاقیات اپنی جگہ‘ عمر کا تقاضا اپنی جگہ کم از کم بات کرتے ہوئے انسان اپنی عمر کا ہی خیال کر لیتا ہے۔ خضاب لگانے سے تو کوئی جوان نہیں بن جاتا۔ بچہ نہیں کہلاتا۔ چہرہ تو ویسے ہی عمر کی چغلی کھاتا ہے۔ لاکھ میک اپ کر لیں‘ کشمش انگور نہیں بن سکتی۔
اب یہ تو معمر بچے اگر اس طرح کے الفاظ استعمال کریں گے تو چھوٹے بچوں پر کیا اثر پڑے گا۔ کیا سیاسی جنگ لڑنے کیلئے مسئلے مسائل ختم ہو گئے ہیں کہ اب یہ لوگ ایک دوسرے کی ذات اور چہروں مہروں پر اتر آئے ہیں۔ جس نے بھی اس چھوٹی سوچ میں پہل کی‘ ذاتیات کی بنیاد پر دھول اُڑائی‘ وہ قابل مواخذہ ہے۔ اسے اپنی اصلاح پر توجہ دینا ہوگی۔ جب ہم کسی کو بُرا کہیں گے‘ وہ جواب میں ہمیں بھی بُرا کہے گا کیونکہ ہمارے ہاں صبر‘ برداشت کا مادہ ختم ہو چکا ہے۔ اس لئے ہمارے یہ نوجوان قسم کے بزرگ سیاستدان کم از کم زبان و بیان کا ہی خیال کر لیا کریں۔
٭…٭…٭
استعفے نہیں جھاڑو پھرتی دیکھ رہا ہوں: شیخ رشید
خدا جانے اب کی بار یہ پنڈی والے اس سیاسی نجومی کو کیا ہو گیا کہ یکدم بیٹھے بٹھائے پھر ان کی حالت غیر ہونے لگی اور انہیں مشرف دور کی طرح بوٹوں کی دلکش صدائیں سنائی دینے لگی ہیں۔ ان صدائوں کی گونج سے ان کی روح سرشار ہو گئی ہے اور انہیں ملک بھر میں جھاڑو پھرتی نظر آرہی ہے جس کی دھول میں معلوم نہیں شیخ جی ملتے بھی ہیں یا نہیں۔
وہ کہتے ہیں ناں ’’ اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے‘‘ سو شیخ رشید جیسے سیاستدانوں کو بھی جو اپنے بل بوتے پر شاید ہی لیلائے اقتدار کے مزے لوٹ سکیں۔ اس مشکل کام کیلئے بھی انہیں دوسروں کی بیساکھیوں کی ضرورت رہتی ہے۔ ہاں اگر مشرف جیسی آمریت آجائے تو ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ اس دورحکومت میں تو انہیں لیلائے اقتدار کا وصال بھی نصیب ہوتا ہے اور یہ مانگی تانگی کی وزارت سے بھی فیض یاب ہوتے ہیں۔
اب اگر شیخ جی جمہوریت پسند ہوتے یا حقیقی سیاستدان ہوتے تو کبھی بھی وہ آمریت کے خواب نہ دیکھتے مگر کیا کریں ان جیسے لوگوں کے دل اور دماغ میں خوئے غلامانہ کچھ ایسی رچ بس گئی ہے کہ سوتے جاگتے جھاڑو پھرتی دیکھتے ہیں حالانکہ ان کے اپنے گھروں میں جھاڑو پھیرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
٭…٭…٭
لندن دنیا میں عورتوں کیلئے سب سے محفوظ ‘نئی دہلی کو خطرناک ترین شہر قرار دیدیا گیا
یہ تو بڑی حیرت کی بات ہے۔ ہم آئے دن یورپی تہذیب اور معاشرت کا رونا روتے ہیں مگر یہاں تو الٹا حساب نظر آرہا ہے۔ عورتوں کا محفوظ ترین شہر لندن ہے۔ جی ہاں لندن۔ جگمگاتی روشنیوں‘ یورپی تہذیب کا آئنہ دار ہے۔ ایک جدید ترقی یافتہ شہر جہاں قدم قدم پر بگڑنے کے‘ گرنے کے‘ لڑکھڑانے کے ایک دو نہیں‘ درجنوں مواقع دستیاب ہیں۔ وہی شہر نگاراں صنف نازک کیلئے محفوظ ترین ہے۔ اس کے برعکس نئی دہلی جو مشرقی تہذیب اور روایات کا امین ہے‘ وہاں کی حالت یہ ہے کہ عورتوں کیلئے سب سے زیادہ خطرناک ترین شہر ہے۔ نئی دہلی ایشیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کی راجدھانی ہے جہاں قدم قدم پر عورت غیر محفوظ ہے حالانکہ مشرقی ممالک میں ثناخوان تقدیس مشرق ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔
خطرناک ترین شہروں میں دوسرا نام نامی اسم گرامی ہمارے پیارے راج دلارے کراچی کا ہے۔ اب کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم کسی سے کم ہیں۔ دنیا کا دوسرا خطرناک ترین شہر ہمارے پاس ہے جہاں آئے روز خواتین پر سرعام چھری سے حملے ہوتے ہیں اور اسے عام روٹین کی بات سمجھ کر کوئی ایکشن ہی نہیں لیتا۔
بہرحال یہ تو عالمی ادارے جانیں جو اس قسم کے فضول سروے اور اچھے بُرے کی پہچان کراتے ہیں۔ اب ہمیں بھی ایک سروے کرانا چاہئے تاکہ معلوم ہو کہ پاکستان میں کونسا شہر عورتوں کیلئے محفوظ ہے اور کون سا خطرناک۔
٭…٭…٭
آکسفورڈ میں ملالہ نے مغربی لباس پہننا شروع کر دیا
ملالہ کے لباس پراعتراض کرنے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ انہیں یہ تو نظر آگیا کہ ملالہ نے جینز پہنی ہے مگر یہ نظر نہیں آیا کہ اس کے اوپر مکمل بازوئوں والی شرٹ اور جیکٹ بھی ہے اور سر پہ اسکارف بھی ہے۔ یہ ایک مکمل مشرقی لڑکی کا لباس ہے جو یورپ میں بھی پہنا جاتاہے۔ ترکی‘ ایران‘ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کی خواتین بھی یہاں یہی لباس پہنتی ہیں۔ اب وہاں ٹوپی والا برقع تو پہننے سے رہیں۔ لندن کو چھوڑیں‘ خود عرب اور دیگر مسلم ممالک میں بھی یونیورسٹیوں‘ کالجز اور دفاتر میں جینز ہی لڑکیاں پہنتی ہیں۔ ملالہ اب یونیورسٹی کی طالبہ ہے‘ اس کے لباس پر کچھ کہنا بلاجواز تنقید ہی کے زمرے میں آئیگا۔
ہمارے اپنے ملک میں بھی یونیورسٹی کی لاکھوں طالبات یہی لباس پہنتی ہیں۔ ہاں اگر ملالہ کوئی غلطی کرے‘ غیر مناسب لباس پہنے تو تنقید بجا تھی۔ رہی بات خیبر پی کے کی تو وہاں بھی ہزاروں طالبات ایسا ہی لباس پہنتی ہیں۔ ان پر تو کوئی تنقید نہیں ہوتی۔ صرف ملالہ کو ٹارگٹ کرنا صرف اور صرف رجعت پسندی ہی کہلائے گا۔ اب وہ لندن میں گھاگرا‘ شرارہ یا ساڑھی تو پہن نہیں سکتی۔ یہ تو خواہ مخواہ تماشا لگانے والی بات ہوگی۔