اتنا کھاؤ جتنی پیٹ میں جگہ ہو: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے اس مشورے پر کان کس نے دھرنا ہے۔ یہاں تو جس کی توند نکلی ہے وہ بھی اور جس کی نہیں وہ بھی کھائے جا رہا ہے‘ اڑائے جا رہا ہے۔ پیٹ پھٹ رہے ہیں‘ دیدے نہیں بھرتے۔ سچ کہتے ہیں انسان کا پیٹ قبر کی مٹی کے سوا کوئی اور نہیں بھر سکتا۔ کوئی قوم کا غم کھائے جا رہا ہے۔ کوئی قوم کے غم میں کھائے جا رہا ہے الغرض سب ایک دوسرے کو لوٹ کے کھا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے سندھ میں حکومت کے نظر نہ آنے کی بات تو کی ہے مگر سندھ حکومت تو پورے صوبے میں ہر جگہ جہاں جہاں گندگی کے ڈھیر ہیں‘ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں‘ یا پینے کا پانی نہیں ملتا وہاں پوری آن بان کے ساتھ نظر آتی ہے۔
یہ اس کے حسن کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جو قدم‘ قدم پر پورے سندھ میں نظر آتے ہیں۔ مگر کیا کریں لینڈ کروزروں‘ پراڈو اور سفاری میں پھرنے والے سندھ کے حاکموں، زرداریوں، میروں، وڈیروں اور سیدوں کی نظر اپنی اس کارکردگی کے منہ بولتے ثبوتوں پر نہیں پڑتی ورنہ ان منرل واٹر پینے والوں کو مضر صحت غلیظ پانی پینے والے شہریوں کی تکالیف ضرور نظر آئیں جو پینے کا صاف پانی تو کجا‘ پینے کے پانی کو ترستے ہیں۔ عوام کیلئے کھانا تو دور کی بات صاف پانی پینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
سانحہ ماڈل ٹاؤن میں شریف برادران کی طلبی کے لئے وکلا اپیل دائر کریں: طاہر القادری
لگتا ہے قادری جی کا دل ابھی تک پانامہ لیکس میں شریف برادران کے حوالے سے ہونے والی باتوں اور سوالات سے بھرا نہیں اس لئے جب انہوں نے دیکھا کہ میدان ٹھنڈا پڑ رہا ہے۔ وکلا کو ہدایت کر دی کہ شریف برادران کو عدالت میں لانے کی کوئی راہ نکالیں۔ اس طرح پانامہ لیکس میں اگر کوئی کسر رہ گئی ہے وہ قادری صاحب پوری کرنے کی کوشش کرینگے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا ہمارے سیاستدانوں کی پرانی عادت ہے۔ حکومت میں ہوں تو اپوزیشن کی اور اپوزیشن میں ہوں تو حکومت کی لے دے کر دیتے ہیں۔ قادری جی کی تو شریف برادران سے پرانی یاد اللہ ہے۔ لگتا ہے انہیں اب بھی شریف برادران سے مال لے کر ہی سکون ملے گا۔ جس کے حصول کیلئے وہ نت نئے بہانے تراشتے ہیں اس لئے وہ ہر سال اپنے سالانہ اجتماع کی طرح سالانہ واجبات کی وصولی کیلئے دھرنا سیریل کی قسط لے کر گا ہے بگا ہے پاکستان نزول فرماتے ہیں۔ مگر جلد ہی اگلی قسط میں انقلاب لانے خون کا حساب لینے کے دعوے کر کے چپکے سے واپس چلے جاتے ہیں۔ اب 2018ء کے الیکشن سر پر ہیں۔ دیکھنا ہے قادری جی اس الیکشن میں اپنا حصہ ڈالنے اور لینے کیلئے کون سا سٹیج سجاتے ہیں…
٭٭٭٭٭٭
موبائل فونز پر بے ہودہ میسجز سے پوری قوم پریشان ہے: لاہور ہائی کورٹ
بات صرف بے ہودگی کی نہیں۔ ذہنی ٹینشن کی بھی ہے۔ دن ہو یا رات‘ صبح ہو یا شام‘ گھر ہو یا دفتر وقفے وقفے سے موبائل فون رکھنے والوں کو بے کار بلاجواز میسجز اس رفتار سے آتے ہیں کہ دماغ چکرا کر رہ جاتا ہے۔ کبھی ایک پیکج کبھی دوسرے پیکج کی شاندار آفر کبھی حسن و صحت اور طاقت کیلئے فضول میسج کبھی 25 فیصد ڈسکاؤنٹ پر خریداری کی پیشکش کبھی خوبصورت نغمے کی ٹیون‘ کبھی انعام نکلنے کے چکمے‘ کبھی بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ سے رقم ملنے کی خوشخبری‘ کبھی کیا کبھی کیا۔ یوں لگتا ہے جیسے موبائل فون کا مقصد ہی سم والی اور تجارتی کمپنیوں اور فراڈیوںکے پیغامات سننا ہے۔ ضروری کام کے دوران یہ میسجز جس طرح زچ کرتے ہیں توجہ بٹاتے ہیں اس کا شاید کمپنی والوں کو کوئی خیال نہیں۔ کاروباری فوائد یہ سمیٹتے ہیں مختلف کمپنیوں کے اشتہاری میسج دے کر اور عذاب صارفین کے حصے میں آتا ہے۔ یہ تو کھلم کھلا صارف کے قانونی حق کی خلاف ورزی ہے۔ خدا کرے اب لاہور ہائیکورٹ اس عذاب سے چھٹکارے کی راہ بھی نکالے تاکہ صارفین دن رات کے عذاب سے محفوظ رہ سکیں۔ موبائل فونز صرف کمپنی کے میسجز کے لئے نہیں یہ بات خود کمپنی والوں کو بھی یاد ہونی چاہئے۔ یہ ایک سہولت ہے اسے زحمت نہ بنائیں۔ موبائل فون رکھنے والوں کا بھی حق ہے کہ وہ ان فضول میسجز سے ہٹ کر اسے اپنے ذاتی استعمال میں بھی رہنے دیں۔
٭٭٭٭٭٭
سڑکیں بنانے سے زیادہ مجھے درخت لگانے میں مزہ آتا ہے: عمران خان
بے شک یہ ایک اچھی بات ہے۔ ہمارے مذہب میں بھی درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ یہ درخت زمین پر لگائے جائیں صرف دفتری کاغذات تک میں ہرے بھرے جنگلات کی رپورٹ پر ’’سب اچھا‘‘ لکھ کر فخر کا اظہار کرنا مناسب نہیں۔ ویسے بھی صدیوں سے یہ روایت ہے کہ ہمیشہ درخت سڑکوں کے کنارے ہی لگائے جاتے ہیں تاکہ مسافروں کو آرام دہ سایہ میسر ہو۔ پشاور سے دہلی تک جب شیر شاہ سوری نے جی ٹی روڈ بنوائی تو اس کے کنارے بھی ہرے بھرے گھنے سایہ دار درخت لگائے گئے مسافروں اور ان کے جانور کے آرام کے لئے اور پینے کے پانی کے حوض اور تالاب بنوائے گئے۔ آبادیوں کے قریب سرائے یعنی مسافر خانے بنے تاکہ خلق خدا آرام کرے۔ بس اب فرق صرف یہ ہے کوئی سڑکیں بنوا رہا ہے کوئی درخت لگا رہا ہے۔ کام دونوں اچھے کر رہے ہیں تو اس میں سیاست نہ کی جائے ورنہ یہ خدمت اور عبادت بھی سیاست کی نذر ہو جائے گی۔ ویسے خان صاحب نے یہ جو 20 ارب درخت لگانے کا منصوبہ بنایا ہے کیا یہ مکمل ہو سکے گا؟ درخت لگیں گے کہاں۔ اب تک جو ایک ارب درخت ان کے بقول لگائے گئے ہیں وہ ذرا بچشم خود ان کا معائنہ بھی کریں کیونکہ اتنے درخت چھپ تو نہیں سکتے۔ صرف رپورٹوں پر نہ رہیں ورنہ سچ پوچھیں تو یہ کام بھی سالانہ شجرکاری مہم کی طرح صرف کاغذوں میں ہی پھلتا پھولتا نظر آئے گا…
٭٭٭٭٭٭