بدھ ‘ 29 ؍ ربیع الثانی 1439 ھ‘ 17 ؍ جنوری 2018ء
دھرنے کیلئے عمران خان اور طاہر القادری کے کنٹینر آ گئے
یہ دھرنا ویسے بھی ایک مضحکہ خیز کھیل تماشا ہے کیوں کہ اس میں چور اور سپاہی کا کھیل کھیلنے والے دونوں سیاسی رہنما بھی اکٹھے ہوں گے اور انہیں اکٹھا کرنے کا کام بھی ایک غیر ملکی شہری کے ہاتھوں انجام پا رہا ہے۔ ہے نا تعجب کی بات۔ عمران خان صاحب نے تو دھرنے سے قبل اعلان بھی کر دیا ہے کہ اس سال انکی پارٹی برسراقتدار ہو گی۔ اب یہی خواب زرداری صاحب کو آ رہے ہیں وہ بھی اسی سال بلاول کی حکومت دیکھ رہے ہیں اور علامہ طاہر القادری بھی آنکھوں میں اپنی حکمرانی کا خواب سجائے ہوئے ہیں۔ یوں خود کو حکمران سمجھنے والے تین بڑے سیاسی اداکار آج لاہور میں خوب رونق لگائیں گے جس کیلئے اطلاعات کے مطابق 30 ہزار کرسیاں لگا دی گئی ہیں۔ عوام کے منورنجن کیلئے سادہ لفظوں میں تفریح طبع کیلئے بھی بہترین ساؤنڈ سسٹم چاروں طرف لگا دیا ہے۔ تینوں جماعتوں کے خوش گلوکار اور میوزیشن اسکے زور پر عوام کا لہو گرمائیں گے۔ جبکہ باقی جو کچھ ان نغمات پر ہو گا ٹی وی پر بیٹھے ناظرین لائیو دیکھیں گے۔ اب تک تو یہ سمجھا جا رہا تھا کہ یہ تینوں اکٹھا ایک کنٹینر سے عوام کی رہنمائی کریں گے۔ مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا تینوں رہنما اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے پر تُلے نظر آتے ہیں۔
طاہر القادری نے اپنا پرآسائش کنٹینر پھر سے رنگ و روغن کرا کے تیار کر لیا تو دوسری طرف عمران خان بھی اپنے پرتعیش کنٹینر کو جھاڑ پونچھ کر میدان میں لے آئے ہیں۔ اب دیکھنا ہے آصف زرداری کیا کرتے ہیں وہ بے نظیر والا کنٹینر کراچی سے منگوانے سے رہے کیونکہ چند روز سے وہ لاہور میں ہیں تو یہاں ہی کوئی کنٹینر بنوا لیتے۔ مگر انہوں نے یہ بھی نہیں کیا۔ اب معلوم نہیں وہ کسی کھلے ٹرک میں دھرنا گاہ آئیں گے یا بچے کھچے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے کاندھوں پر۔
………………
خواجہ سراؤں کو زنانہ ڈبے میں بٹھایا جائے یا مردانہ؟ ریلوے نے عوام سے رائے طلب کر لی۔
عوام سے رائے طلب کرنے کی بجائے کیا ہی بہتر ہوتا اگر خوجہ سراؤں سے ہی پوچھ لیا جاتا کہ جناب آپ کہاں تشریف رکھنا پسند کریں گی۔ پھر ان کی برادری کی طرف سے جو اکثریتی جواب آتا اس پر فیصلہ کیا جاتا کہ انہیں مردانہ ڈبے میں جگہ دی جائے یا زنانہ ڈبے میں۔ یا ان کیلئے علیحدہ ڈبہ مخصوص کیا جائے۔ ویسے ان کیلئے ایک کمپارٹمنٹ ہی مخصوص کیا جائے تو بہتر ہے۔ اگر سواریاں معقول تعداد میں دستیاب نہ ہوں تو پھر وہاں ان مسافروں کو جگہ دی جائے جو ٹکٹ ہونے کے باوجود فرش اور پائیدانوں پر بیٹھ کر سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ چاہے مردانے میں بیٹھیں یا زنانے میں ہر جگہ ان سے چھیڑ چھاڑ ہو گی نہ ہوئی تو وہ خود کب زیادہ دیر نچلا بیٹھتے ہیں ان کی حرکات اور سکنات لب و لہجہ اور شوخیاں خود ہی ڈبے میں ایسا شور شرابا برپا کر دیں گی جس سے مردم بیزار لوگ بھی ہنسنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ویسے یہ عجیب بات ہے کہ خواجہ سراؤں کو انکے حقوق دینے کے اقدامات کا آغاز ہوا ہے تو اس میں یہ ریلوے کو کہاں سے اپنی سواریوں کا خیال آ گیا۔ اب کہیں سکول‘ کالج اور یونیورسٹی والے بھی یہی مطالبہ کرتے نظر نہ آئیں کہ وہ انہیں کہاں داخلہ دیں۔ ایسی ایسی درفنطنیاں چھوڑنے کی بجائے انہیں صرف عام شہری رہنے دیں۔ انہیں علیحدہ کوئی مخلوق بنانے سے گریز کیا جائے کیونکہ وہ پہلے انسان ہیں اس کے بعد کچھ اور…
بل گیٹس نے پاکستان کی مالی امداد بڑھانے کا اعلان کر دیا۔
پنجابی کی کہاوت ہے ’’بندہ کرے کولیاں تے سوہنا رب کرے سَولیاں‘‘ یعنی انسان مشکلات لاتے ہیں مگر پیارا خدا آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
سو اب امریکہ نے پاکستان امداد بند کرنے کی دھمکیاں دے کر خود کو خدا سمجھنا شروع کیا تھا۔ مگر وہی یاس یگانہ چنگیزی والی بات سامنے آ گئی۔ ’’خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا‘‘ امریکی دھمکیاں رائیگاں جا رہی ہیں اور اوپر والا خود بخود آسانیاں پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ اب راہیں جتنی مشکلات سے پُر ہوں گی آسانیاں بھی اتنی زیادہ ہوں گی۔ امریکہ نے امداد کا در بند کیا اچھا کیا ہماری بھی بحیثیت قوم ثابت قدمی اور سینہ تان کر کھڑے ہونے کی حمیت بیدار ہو گئی اور جواباً پاکستان نے بھی امریکہ کو ٹھینگا دکھا دیا ہے کہ اب ڈو مور نہیں چلے گا اب پاکستان کیلئے Love More" فلسفہ اپنانا ہو گا۔
ویسے بھی کہتے ہیں ایک در بند ہو تو سو در اور کھلتے ہیں۔ چنانچہ یہی پاکستان کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ دنیا کے سب سے امیر آدمی بل گیٹس نے اعلان کیا ہے کہ انکی بل اینڈ میلنڈاگیٹس فاؤنڈیشن پاکستان کی مالی امداد میں اضافہ کرے گی۔ اس طرح پاکستان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ہی ہو گا اور اس کے کم از کم ڈو مور کے تقاضوں سے تو جان چھوٹ جائے گی۔ اب اگر پاکستانی کھرب پتی افراد بھی غیرت ایمانی اور حب الوطنی کا مظاہرہ کریں اور اپنے اپنے ذاتی خزانوں سے اتنی رقم اکٹھی کر لیں کہ پاکستان کے ذمہ واجب الادا بیرونی قرضے ادا ہو جائیں تو پوری قوم ان کی شکر گزار ہو گی اور ان کے پچھلے گناہ معاف کر دے گی۔ اگر وہ بیرون ملک اثاثے بھی ملک واپس لے آئیں تو پھر پاکستانی بھی فخر سے کہہ سکیں گے کہ ہمارے ہاں تو ’’ہن برستا‘‘ ہے۔
………………
بابری مسجد شہید کرنے والا وشوا ہندو پریشد کا سربراہ پروین توگڑیا لاپتہ
اب معلوم نہیں یہ پروین توگڑیا کو آسمان کھا گیا یا زمین نے نگل لیا۔ یہ انتہائی موذی انسان ہے۔ اب اگر یہ کہیں مر کھپ گیا تو کہیں اس کا الزام بھی مسلمانوں پر نہ لگ جائے۔ یوں یہ موذی مرنے کے بعد بھی مسلمانوں کیلئے وبال جان بنا رہے گا۔ اطلاع یہ ہے کہ اسے پولیس نے کسی سابقہ کیس کے سلسلے میں اٹھایا ہے۔ مگر پولیس انکار کر رہی ہے۔ اب کہیں پولیس کو دھوکا تو نہیں لگ گیا اس کے نام سے جو آدھا مسلمانوں جیسا ہے یعنی پروین یہ نام مسلمان بھی رکھتے ہیں۔ اب کہیں یہ نہ ہو کہ پروین توگڑیا کو پولیس والے ایسا رگڑا لگائیں کہ وہ آدھا مسلمان ہو کر پولیس کی حراست سے باہر آئے۔ اگر وہ کسی بھارتی مسلمان تنظیم کے ہتھے چڑھ گیا ہے تو پھر پورا خطرہ ہے کہ وہ چند روزہ تربیتی نشست کے بعد خود بخود مسلمان بن جائیگا۔ آگے ہم نہیں جانتے حقیقت کیا ہے۔ ویسے بھی اس موذی کے مسلمان بننے کے چانس زیادہ ہیں کیونکہ بابری مسجد شہید کرنے میں پیش پیش رہنے والے انتہا پسند ہندوؤں میں سے اکثر یا تو مسلمان ہو چکے ہیں یا بھیانک موت سے ہمکنار۔
جو مسلمان ہوتے ہیں ان میں سے ہر ایک مسلمان ہونے والے نے کفارے کے طور پر اپنے اپنے علاقوں میں مساجد بنانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اب کہیں پروین توگڑیا مسلمان ہو کر سامنے آتا ہے تو کہیں وہ بابری مسجد کو دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان نہ کر بیٹھے اگر ایسا ہو گیا تو پھر کیا ہو گا۔
………………