سندھ اور کراچی کے بغیر بھارت ادھورا لگتا ہے، ایڈوانی۔
بھارت کے یہ متعصب انتہاء پسند رہنما سندھ اور کراچی کی حسرت دل میں لئے ہی پر لوک سدھاریں گے۔ جیسا کہ ان سے پہلے بہت سے پاکستان دشمن بھارتی نیتا اپنے بد ارادوں اور ناکام حسرتوں کو دل میں لئے آنجہانی ہو چکے ہیں۔اب ان میں ایڈوانی بھی شامل ہونے والے ہیں۔ سندھ اور کراچی تو پاکستان کا حصہ ہیں اور رہیں گے بھارتی لاکھ سازشیں کر لیں یہ جسد واحد کی طرح جڑے رہیں گے۔ البتہ سب پاکستانیوں کو کیالیڈر اور کیا عوام کشمیر کے بغیر پاکستان ضرور ادھورا لگتا ہے۔ ایڈوانی اگر آنکھیں کھول کر بصیرت اور بصارت سے دیکھیں تو انہیں پتہ چلے کہ کشمیری بھی پاکستان کے بنا خود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں اسلئے وہ اپنے فطری اور قدرتی وجود کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔جس لئے انہوں نے بھارت کی 7لاکھ افواج کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں۔ ایڈوانی یاد رکھیں کہ ابھی بھارتی مسلمان بابری مسجد کی شہادت نہیں بھولے جس میں آپ پیش پیش تھے ۔ اگر بھارتی مسلمانوں کے دلوں میں بھی دہلی، لکھنؤ، حیدر آباد دکن کی یادیں انگڑائیاں لینے لگیں تو دہلی کے لال قلعے پر ایک بار پھر سبز پرچم لہرانے کا خواب البتہ ضرور پورا ہو سکتا ہے۔ بھارت میں ایک نیا پاکستان نہ سہی ایک نیا اسلامستان ضرور جنم لے سکتا ہے۔
٭…٭…٭
خانقاہ ڈوگراں میں 12روز قبل دوران ڈکیتی چھینی گئی کار پولیس والوں سے برآمد
اب لاکھ انکار کریں یہ پولیس والے جن سے یہ کار برآمد ہوئی مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ کار سرکاری نمبر پلیٹ لگا کر سب انسپکٹر اور ہیڈ کانسٹیبل نہایت ڈھٹائی سے استعمال کرتے رہے۔ اگر پکڑے نہ جاتے توکہاں سے یہ معاملہ کھلتا۔ پولیس والے کھلم کھلا کالے کرتوت کرتے پھریں اور انہیں کوئی پوچھے تک نہیںایسا کب تک ہوتا رہے گا، موصوف سب انسپکٹر فرماتے ہیں کہ انہیں یہ کار لا وارث ملی تھی تو جناب نے اندراج کر کے اسکے مالکان کو تلاش کرنے کی کوشش کیوں نہ کی۔ مال مفت سمجھ کر اپنے استعمال میں کیوں رکھا۔ کیا قانون جاننے والے یہ پولیس اہلکار نہیں جانتے کہ ایسی مشکوک لا وارث گاڑیاں وارداتوں میں بھی استعمال ہو سکتی ہیں، پھر بھی یہ خطرہ کیوں مول لیا انہیں اپنے پاس رکھنے کا ۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ واردات کی ہی انہی کے پیٹی بند بھائیوں نے ہو گی یا ان سے کروائی گئی ہو گی، تا کہ بعد ازاں مال مشترکہ کے طور پر سب یہ گاڑی استعمال کرتے رہیں، اب’’ پولیس کا ہے فرض لوٹنا آپ کو ‘‘ والا ماٹو زباں زد عام ہے شاید اسی لئے لوگ پولیس کو دیکھ کر نا خوش اور فوج کو دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں۔
٭…٭…٭
خیبر پی کے میں 35لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں، باچا خان فائونڈیشن۔
اس کار خیر میں اے این پی کا اپنا بھی بڑا ہاتھ ہے جو خود کو باچا خان المعروف سرحدی گاندھی کا پیرو کار کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ جس طرح باچا خان نے مرنے کے بعد پاکستان میں دفن ہونا منظور نہیں کیا اس طرح بچوں کو تعلیم دلانا بھی اے این پی کی حکومت نے بھی منظور نہیں کیا ورنہ انکے دور حکومت میں تعلیم عام کی جا سکتی تھی کس نے روکا تھا ۔مگر ایسا نہیں کیا گیا ساری قوت اور طاقت تعلیمی حالت کے بجائے سرخپوشوں نے اپنی حالت بہتر بنانے میں صرف کی، تعلیم کا بھی وہی حال ہوا جو سرخپوش رہنما حاجی غلام احمد بلور نے ریلوے کا کیا۔ اب باچا خان فائونڈیشن کو پتہ چلا ہے کہ ان کے صوبے میں 35لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ جہاں جہاں تعلیم دی جا رہی ہے وہاں لڑکوں اور لڑکیوں میں فرق رکھا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم کے کم مواقع حاصل ہیں، کیونکہ اس نیم خواندہ معاشرے میں ہنوز بچیوں کو تعلیم دلانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ صوبے کے موجودہ حکمرانوں کو بھی شاید اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ نیم خواندہ افراد بہت بڑی نعمت ہیں جو ان کی تقریروں سے جلد متاثر ہو کر انہیں ووٹ ڈالتے ہیں…!ورنہ 4برسوں میں اور کچھ نہیں تو پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی والے بچوں کی تعلیم پر ہی توجہ دیتے تو خواندگی میں اضافہ ہو سکتا تھا۔
٭…٭…٭
دل چاہتا ہے سیاست دان بن کر پاکستان کی وزیر اعظم بن جائوں ، ملالہ
کسی کے چاہنے یا نہ چاہنے پہ کوئی پابندی نہیں ورنہ ملک کے حالات دیکھ کر تو وزیر اعظم بننا بڑے دل گردے کا کام لگتا ہے۔ اب ملالہ کی طرف سے ایسی خواہش کا اظہار حیران کن ضرور ہے۔ پہلے ہی کچھ لوگ دبے لفظوں میں کہتے پھرتے تھے کہ مغرب یا امریکہ والے ملالہ کو تیار کر رہے ہیں پلانٹ کر رہے ہیں کہ آئندہ اسے اپنا مہرہ بنا کر پاکستان کی قیادت سونپی جائے اسی لئے ایسا ڈرامہ سٹیج کیا گیا قاتلانہ حملے کے بعد عالمی سطح پر اس بچی کی اسقدر پزیرائی کی گئی کہ ملالہ پوری قوم کی آنکھ کا تارا بن گئی۔ اب ملالہ کی طرف سے سیاستدان بن کر وزیر اعظم بننے کی خواہش کا جنم لینا بہت سے لوگوں کو بولنے پر مجبور کریگا کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے ۔ابھی تو ملالہ اپنے تعلیمی کیریئر پر توجہ دے سیاست کو دل سے نکال کر خدمت کو دل میں جگہ دے ۔غریب محکوم و مجبور پاکستانیوں کی حالت بدلنے کیلئے سوچے کوئی ایسی راہ نکالے کہ پوری قوم اسکے شانہ بشانہ کھڑی ہو یورپ اور امریکہ میں رہ کر اگر ملالہ کسی ایسی انقلابی سوچ کو اپنانے اور پھیلانے میں کامیاب ہو گئیں تو وزیر اعظم بنے بغیر ہی وہ ملک کی حالت بدل سکتی ہیں۔ اگر بات پروٹوکول اور حکومت کی ہے تو پھر آپ ہی کیوں کیا مریم نواز، آصفہ بھٹو پہلے ہی ہمارے پاس موجود ہیں۔