ڈاکٹر عاصم کو علاج کے لئے باہر جانے کی اجازت مل گئی۔
وہی ہوا جس کا کچھ کچھ سب کو اندازہ تھا۔ کس کس کا نام لیں۔سلسلہ ہے کہ شیطان کی آنت کی طرح پھیلتا ہی جارہاہے۔ حسین حقانی گئے، ایان علی چلی گئی پرویزمشرف باہر بیٹھے ہیں۔ اس ضمانت کے باوجود کہ جب عدالت طلب کرے گی بسر و چشم حاضرہوں گے۔ مگر اب عدالت آوازیں دے دے کر بلا رہی ہے توسب نے یوں کان لپیٹ رکھے ہیں جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں۔ انہیں کیا پڑی واپس اوکھلی میں سر دینے کی۔ ضمانتی کہاں ہیں جو انکی واپسی کے ضامن تھے۔
جواب ندارد۔ یہاں تو جو گیا سو گیا اور باہر جا کے سوہ ہی گیا اب اگر عدالت ڈاکٹر عاصم کے ہسپتال کو بطور ضمانت رکھ لیتی ہے۔ تو اس سے کیا فرق پڑے گا ان پر اربوں روپے کے ہیر پھیر کا الزام ہے۔ ان کے باہر جا کر غائب ہونے کے بعد یہ چند ارب روپے کا ہسپتال اگر حکومت قبضہ میں لے بھی لے گی تو کیا ہو گا کہاں یہ 3 یا 4 ارب کا ہسپتال اور کہاں 460 ارب کی بیرون ملک پڑی دولت‘ فرق صاف ظاہر ہے۔ یہ خسارے کا سودا نہیں فائدہ ہی فائدہ ہے وہ کہتے ہیں ناں… بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ یہ ایسے ہی موقعوں پر کہا جاتا ہے۔ تو جناب اب ڈاکٹر صاحب بھی
چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ والا گیت گاتے ہوئے رخصت ہونے والے ہیں……
٭…٭…٭…٭…٭
بدعنوانوں سے بدبو آتی ہے۔ ساتھ نہیں بیٹھ سکتا۔ صدر ممنون
جناب صدر کی اس صلاحیت سے ابھی تک سب ناواقف تھے۔ یہ کمال شاید ہی کسی اور کو حاصل ہو۔ صوفیا کے بارے میں سنا ہے انہیں وضو سے دھلتے ہوئے گناہ نظر آتے ہیں۔ گناہگار کے اندر کی سیاہی نظر آتی ہے۔ اب معلوم ہوا کہ ہمارے صدر بھی حلقہ صوفیا میں شامل ہیں۔ ورنہ کرپشن کرنے والے پاک صاف مہنگے کپڑے نہا دھو کر قیمتی عطریات و خوشبویات میں رچا بسا کر پہنتے ہیں کہ ہم جیسے گناہ گار بھی انکی خوشبو کی لپٹوں میں آکر بدمست ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ان کے اندر کی خباثت اور بدبو چھپ جاتی ہے۔ مگر آفرین ہے ہمارے صدر پر جنہیں یہ غیر مرئی طاقت حاصل ہے کہ وہ سونگھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ کرپٹ شخص ہے۔ مگر انہوں نے اپنی اس صلاحیت کا کبھی اپنی عاجزانہ طبیعت کی وجہ سے نہیں کیا۔ اب چونکہ بات کھل گئی ہے تو حکومت وقت ان کی خدمات نیب کے لئے ہی مستعار لے لے جہاں وہ صرف سونگھ کر کرپٹ افراد کو نشان عبرت بنانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کی اس صلاحیت سے فائدہ نہ اٹھانا کفران نعمت ہوگا۔
٭…٭…٭…٭…٭
فیصل آباد میں وزیراعلیٰ کے ایک طرف عابد شیر علی دوسری طرف رانا ثنا موجود رہے۔
یہی تو کمال ہے ہمارے وزیراعلیٰ کا جنہیں عرف عام میں خادم اعلیٰ بھی کہتے ہیں اور دنیا بھر میں خاص طور پر چین اور ترکی میں چاہنے والے انہیں انکی تیز رفتار پرواز کی وجہ سے پنجاب سپیڈ کا لقب دیتے ہیں۔ فیصل آباد میں انہوں نے آگ اور پانی کا ملاپ کرکے دکھا دیا کہ آگ‘ ہوا‘ مٹی اور پانی سب ان کی مٹھی میں ہیں۔ جبھی تو فیصل آباد کے لوگ وزیراعلیٰ کے دائیں طرف عابد شیر علی اور بائیں طرف رانا ثناء اللہ کو دیکھ کر آنکھیں ملتے پائے گئے۔ یہ تو
دل میرے دو ہوندے دوئیں راضی رہندے جی
اک اک ونڈ دیندی جھگڑے نہ پیندے جی
والی بات سے بھی بڑی بات ہوئی۔ اب اسے کرامات ہی کہہ سکتے ہیں کہ پورے دورے میں یہ دونوں ’’ایک دشمن جو دوستوں سے بھی پیارا ہے‘‘ کی مثال بنے وزیراعلیٰ کے ساتھ رہے۔ شکرہے یہ مرحلہ بخیر و خوبی سے سرانجام پایا اب فیصل آباد کے مسلم لیگی تو سکون کا سانس لیں گے ورنہ انہیں فکر لگی رہتی تھی کہ کس کا ساتھ دیں اور کسی کا نہ دیں۔ وزیراعلیٰ ان دونوں میںاب سیز فائر بھی کرا دیں۔ شیر و شکر نہ سہی۔ صبر و شکر ہی پر راضی کرا دیں تو یہ فیصل آباد میں مسلم لیگ (ن) کی بڑی کامیابی ہو گی…
٭…٭…٭…٭…٭
فاروق عبداللہ کا جیتنے کے بعد کشمیر میں گورنر راج نافذ کرنے کا مطالبہ
اگر اس کو کامیابی کہتے ہیں تو پھر تُف ہے ایسی کامیابی پر جس میں 15 سے زیادہ نونہالان وطن کا لہو بھینٹ چڑھایا گیا ہو۔ عزت‘ غیرت اور شرم و حیا سے عاری یہ بھارت کی کٹھ پتلیاں خواہ فاروق عبداللہ ہو۔ محبوبہ مفتی یہ سب کشمیریوں کے لہو پر سیاست چمکا رہے ہیں۔ ہارتے ہوں تو انہیں کشمیریوں کا درد یاد آتا ہے۔ جیت جائیں تو سب غم بھلا دیتے ہیں۔ اب اسی بھارتی مُہرے کو دیکھ لیں بڑھاپے میں بھی جھوٹ سے باز نہیں آرہا۔ کہتا ہے۔ میں نے کبھی اپنے استعفے کی بات نہیں کی۔ اگر ہارا ہوتا تو بیان کچھ اور ہوتا۔ موصوف جیتنے کے بعد لگتا ہے کچھ زیادہ ہی پی گئے اور شراب کے ڈرم میں گرنے والے چوہے کی طرح اب دم کے بل پر کھڑے ہوکر اپنے آقا بھارت سے کشمیر میں گورنر راج نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس غدار ابن غدار کو کشمیر اور کشمیریوں کی کوئی فکر نہیں انہیں بس اپنے لیے کرسی چاہئے جس پر بیٹھ کر وہ بھی کشمیریوں کے قتل عام میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ ضمنی الیکشن میں 93 فیصد کشمیریوں نے ووٹ نہ ڈال کر انکی گندی سیاست کے چہرے پر تھوک دیا ہے مگر یہ بے شرم لوگ وکٹری کا نشان بنا کر اپنی اس بے عزتی پر بھی مسکرا رہے ہیں…
٭…٭…٭…٭…٭