جمعۃ المبارک‘ 27 جمادی الثانی 1436ھ ‘ 17؍ اپریل 2015ء
اقوام متحدہ دہشت گردی کی ایک تعریف مقرر کرے۔بھارتی وزیراعظم
اور وہ تعریف ایسی ہو جس سے بھارت مطمئن ہو بلکہ یوں کہہ لیں اگر اس میں بھارت کی تعریف کا بھی کوئی پہلو نکل آئے تو وہ اس قرارداد پر تین مرتبہ قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے بھی کہہ سکتے ہیں۔ایک جمہوری ملک کہلانے والے ملک کے سربراہ ابھی تک اقوام متحدہ کی دہشت گردی کی تعریف سے مطمئن نہیں تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ وہ اپنی من مرضی کی تعریف مقرر کرنا چاہتے ہیںجس میں اقوام متحدہ واضح کر دے کہ غاصب اقوام کے ہاتھوں مقبوضہ اقوام کا قتل عام دہشت گردی نہیں ہاں مظلوم مقبوضہ اقوام کا ظالم غاصب اقوام کے خلاف لڑنا ہی نہیں آواز بھی بلند کرنا دہشت گردی ہے۔ اس قسم کی تعریف سے بھارت کو تسلی بھی ہو گی اور مودی کو دلی اطمینان بھی ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ تو روز اول سے دہشت گردی کی تعریف مقرر کر چکا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اپنے نک چڑھے منہ زور اور بد دماغ طاقتور ممبران جب چاہیں اس تعریف کو اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے کمزور اقوام پر چڑھائی کر دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ بے چاری کسی مظلوم عورت کی طرح ان درندوں کو امن کی دھجیاں بکھیرتے دیکھتی ہے اور خاموش تماشائی کا کردار بخوبی ادا کرتی ہے۔ جب ان درندوں کا دل بھر جاتا ہے تو اقوام متحدہ کے سوئے کچھ ممبران بھی جاگ پڑتے ہیں اور لگ جاتے ہیں اس کھلم کھلا دہشت گردی کی دبے لفظوں میں مذمت کرنے۔ رہ گئے بے چارے دہشت گردی کا شکار لوگ اور علاقے‘ وہ اپنے زخموں کو سہلاتے ہوئے اقوام متحدہ کی بے بسی اور اس کے ممبران کی بے حسی پر آنسو بہاتے رہ جاتے ہیں۔
ویسے مودی جی اتنے بھولے نہیں ورنہ کشمیر، میزورام، میگالے، آسام‘ ناگا لینڈ اور خالصتان جا کر دہشت گردی کا مطلب کسی سے پوچھ لیں وہ ان کی پوری تسلی کرا دیں گے۔
٭…٭…٭…٭
بنگلہ دیش کا دورہ کرنے والی پاکستانی قومی کرکٹ ٹیم کو پریکٹس میچ میں شکست۔
ابھی تو دورہ شروع ہوا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ یہ بنگلہ دیش کی قومی کرکٹ ٹیم نہیں پی سی بی کی ٹیم سے مقابلہ ہوا ہے اور ہماری قومی ٹیم کا یہ حال ہے تو سوچیں جب بنگلہ دیش کی قومی ٹیم برسر میدان ہو گی تو کیا ہو گا۔ چلیں ہم ’’وہی ہو گا جو منظور خدا ہو گا‘‘ کہہ کر دل کو تسلی دے لیتے ہیں مگر یہ حقیقت بہت تلخ ہے کہ ہمارے کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتا کھیل کے نام پر کھیل کے ساتھ جو کھلواڑ کررہے ہیں اس کی وجہ سے ہمیں فی الحال عرصہ دراز تک ایسی ناکامیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ اس کے بعد قدرتی بات ہے‘ سیکھتے سیکھتے کھلاڑی بہت کچھ سیکھ جائینگے‘ بس دعا یہ کریں کہ پہلے والے ہمارے روشن ستاروں کی طرح یہ بھی میچ فکسنگ اور کھیل کے میدانوں سے باہر کے میدانوں اور شبستانوں کی آبادی کا ہنر بھی نہ سیکھ لیں۔ اس کے باوجود ہم اقبال کی طرح… ؎
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
والی بات پر پورا ایمان رکھتے ہیں اور دعاگو بھی ہیں کہ خدا کرے یہ ہار عارضی ہو اور باقی تمام میچوں میں کامیابی ہماری پیاری ٹیم کے قدم چومے۔ نوجوان کھلاڑیوں پر اعتماد کرنا ہی پڑتا ہے کیونکہ پرانے کھلاڑیوں نے بھی بالآخر آہستہ آہستہ کھیلوں پر تبصرے اور کھلاڑیوں پر تنقید کا کام ہی سنبھالنا ہے۔ آج نہیں تو کل یہی نوجوان کھلاڑی پاکستانی ٹیم کو ایک بار پھر بام عروج پر پہنچا دیں گے۔ بس شرط یہ ہے کہ یہ خود کسی سفارشی کے کاندھوں پر چڑھ کر گرین کیپ حاصل کرنے والے نہ ہوں۔ میرٹ ہمیشہ کامیابی کی راہ آسان بناتا ہے۔ من مانی اور سفارش اس راہ کو کھوٹا کر دیتی ہے۔
٭…٭…٭…٭
الیکشن مہم کے دوران برطانوی وزیراعظم 10 سالہ بچی کے سوال پر گھبرا گئے۔
لو کر لو گل تے سن لو باٹ۔ یہ بھی کیا بات ہوئی۔ ایک ہمارے حکمران ہیں 10 سالہ بچی تو کیا اگر 18 کروڑ عوام بھی ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دیں۔ حرام ہے ان کے ماتھے پر ایک شکن بھی نظر آئے۔ گھبراہٹ تو بڑی دور کی چیز ہے۔ یہ جمہوریت اور جمہوری مزاج رکھنے والے ممالک کے سربراہ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ بھلا انہیں ضرورت ہی کیا تھی اتنی چھوٹی بچی سے بات کرنے کی۔ جس کا ابھی ووٹ بھی نہیں بنا ہو گا۔ اس بچی کو تو سر پر ہاتھ پھیر کر یا ایک چاکلیٹ دے کر بھی ٹرخایا جا سکتا تھا۔ یا مسکراتے ہوئے ’’اچھے بچے ایسی باتیں نہیں کرتے‘‘ کہہ کر دامن چھڑایا جا سکتا تھا۔ مگر یہ بے چارے پریشان ہو گئے۔ ہمارے حکمرانوں کو دیکھ لیں ان سے یہ بودے حکمران سبق حاصل کریں جو 18 کروڑ عوام کی طرف سے پے در پے کرپشن، مہنگائی اور بدامنی کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات بھی ہنس کر ٹال دیتے ہیں۔
اب اس کے جواب میں یہ 18 کروڑ عوام اپنا خون جلائیں یا آنسو بہائیں ہمارے حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ جواب دہی اور عوامی ردعمل کا خوف صرف حقیقی جمہوریت اور جمہوری مزاج رکھنے والی قوموں اور ان کے حکمرانوں میں ہوتا ہے۔
ہم ایک آزاد اسلامی ریاست کے باشندے ہیں۔ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم مغربی ممالک کی ہر کام میں پیروی کریں۔ ہم تو اپنے دین کی پوری طرح پیروی نہیں کر سکتے تو دیگر نظاموں اور لوگوں کی اچھی باتوں پر توجہ کیوں دیں۔ اس لئے ہمارے حکمران بھی اس چھوٹی سی خبر پر توجہ نہ دیں تو اچھا ہے۔ بلاوجہ ٹینشن ہو گی۔ ویسے کیا ہمارے حکمران اخبار پڑھنے یا ٹی وی پر پی ٹی وی کے علاوہ خبریں دیکھتے ہیں یا نہیں۔ پہلے تو اس بات کا پتہ کرنا پڑے گا۔