پیر ‘ 25 محرم الحرام 1439ھ‘ 16 اکتوبر2017
متحدہ مجلس عمل کی بحالی کیلئے کوآرڈینیشن کمیٹی نے کام شروع کردیا
متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا شوق ہماری مذہبی و سیاسی جماعتوں میں ہر الیکشن سے قبل اچانک بیدار ہوتا ہے‘ خوب گہماگہمی رہتی ہے‘ آئے روز اجلاس ہوتے ہیں‘ پریس کانفرنسیں ہوتی ہیں‘ سیمینار ہوتے ہیں‘ ریڈیو‘ ٹی وی‘ اخبارات اور اب میڈیا چینلز پر بہت سے مذہبی‘ سیاسی رہنماﺅں کے بیانات اور تقاریر چلتی رہتی ہیں۔ یوں ان تقریبات میں ایسی ایسی جماعتوں اور قائدین کی رونمائی بھی ہوتی ہے جو سالہا سال گوشہ گمنامی میں پڑے رہتے ہیں مگر الیکشن کا سیزن آتے ہی گونگلوﺅں سے مٹی جھاڑ کر متحدہ مجلس عمل کے نام سے منہ دکھائی کیلئے سامنے آجاتے ہیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ان میں سے اکثریت ان جماعتوں کی ہوتی ہے جن کا ووٹ بینک تو دور کی بات اپنی تنظیم سازی تک نہیں ہوتی۔ وہی تین چار افراد صدر‘ سیکرٹری وغیرہ پوری جماعت کہلاتے ہیں۔ اب بھی جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام کے علاوہ جمعیت علمائے پاکستان‘ جمعیت علمائے اہلحدیث کے مختلف دھڑوں میں سے کوئی ایک دھڑا مل کر مجلس وحدت المسلمین یا تحریک نفاذ فقہ جعفریہ میں سے کسی ایک کو ساتھ ملا کر متحدہ مجلس عمل کو جگانے کی تیاری کریں گے۔ اب اگر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے دانہ ڈالا تو ان میں ایک دو جماعتیں فوراً مجلس کو چھوڑ کر تنہا پرواز کرتی ہوئی ان کی اتحادی کہلائے گی۔ اس وقت حلقہ این اے 120 میں نوزائیدہ مذہبی جماعتوں لبیک پاکستان اور ملی مسلم لیگ نے جس طرح ہزاروں ووٹ لئے اس سے مذہبی جماعتوں میں حرارت پیدا ہوئی ہے مگر وہ بھول رہی ہیں کہ جماعت اسلامی کو کتنے ووٹ ملے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے خالصتاً مسلکی بنیاد پر ووٹ حاصل کئے جو آنے والے الیکشن میں اختلاف کی خلیج مزید گہری کرسکتا ہے ....
٭٭٭٭٭٭
نوازشریف‘ عمران خان اور زرداری کے ایک دوسرے کیخلاف بیانات سیاست ہے: شیخ رشید
چلیں شکر ہے سچ تو نکل گیا بالآخر شیخ جی کے منہ سے ورنہ وہ تو منہ پھاڑ کر اپنی سیاست اور خان صاحب کی سیاست کو حق اور سچ جبکہ نوازشریف ‘ زرداری کی سیاست کو جھوٹ و فریب کا مرقع قرار دیتے نہیں تھکتے۔ اب وہ خود ارشاد فرما رہے ہیں کہ ان تینوں کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی صرف اور صرف سیاست ہے تو پھر عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ سچ کیا ہے‘ حقیقت کیا ہے؟ اس بیان بازی کی وجہ سے پورا ملک بھڑکتا سیاسی الاﺅ بن چکا ہے‘ ادارے ایک دوسرے کے مقابل آگئے ہیں ایسا کیا یہ سیاست دان جان بوجھ کر رہے تھے اور بے چارے عوام اور ریاستی ادارے ان کی سیاست کی بھینٹ چڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اس میں نقصان تو ان بیان باز سیاستدانوں کا نہیں عوام اور ملک کا ہورہا ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں کسی کی جان جاتی ہے تمہارا کھیل ہوتا ہے۔ یہ تو وہی کیفیت پوری قوم ایک دوسرے سے دست و گریباں ہے اور شیخ جی فرماتے ہیں کہ یہ سب سیاست ہے۔ اگر باہمی انتشار کا نام سیاست ہے تو پھر تف ہے ایسی سیاست پر۔ اس کا تو صاف مطلب یہی ہے کہ سیاست دانوں کو ملک و قوم کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ان کے سر پر صرف اور صرف لیلائے اقتدار سے وصل کی خواہش سوار رہتی ہے ورنہ کم از کم وہ حالات کو اس نہج تک تو نہ لے جاتے ۔ اب شیخ رشید نے بجا طور پر ”ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوڑ“ کر اپنے سمیت سب کو بے نقاب کردیا ہے۔ وہ خود بھی اس سیاست کا ایک گھسا پٹا مہرہ ہیں اور سب کچھ بخوبی جانتے ہیں....
٭٭٭٭٭٭
لاہور میں اورنج ٹرین کے بعد بلیو ٹرین چلے گی
اب تک لوگ بلیو ویل نامی گیم کے خوف سے باہر نہیں نکلے تھے کہ لاہور میں بلیو ٹرین چلانے کے منصوبے کا سن کر تو ان کے ہوش ہی اڑ گئے ہیں۔ اس ٹرین کیلئے ایشین بینک اور حکومت پنجاب میں بات چیت چل رہی ہے جو ظاہر ہے کسی معاہدے پر ہی منتج ہوگی۔ ابھی تک لاہور والے میٹرو بس اور اس کے بعد اورنج ٹرین کی توڑ پھوڑ کے 5 سالہ تجربے کے ہاتھوں گردوغبار‘ ٹریفک مسائل اور بیماریوں کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت و کوفت سے نہیں نکل سکے تھے کہ بلیو ٹرین کا خوف اب کسی بلیو ویل نامی گیم کی طرح ان کے حواس پر سوار ہوجائے گا۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ کا سب سے زیادہ اثر عوام الناس پر ہی پڑتا ہے‘ سب سے زیادہ تکالیف انہیں ہی برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ لگتا ہے لاہور جو قدیم تاریخی عمارتوں‘ باغات اور اولڈ سٹی کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے اب فلائی اوورز اور سروں سے گزرنے والی بسوں اور ٹرینوں کی وجہ سے پاکستان میں اپنی شہرت بنالے گا۔ پہلے لوگ ملک بھر میں شاہی مسجد‘ شاہی قلعہ‘ مینار پاکستان‘ شالا مار باغ‘ لارنس گارڈن‘ راوی‘ مقبرہ جہانگیر‘ مقبرہ نور جہاں دیکھنے کیلئے لاہور آتے تھے اب وہ میٹرو بس‘ اورنج ٹرین اور بلیو ٹرین دیکھنے اور اس پر سواری کرنے کیلئے آیا کریں گے۔....
٭٭٭٭٭٭
بنی گالہ میں یار محمد رند کے خلاف دھرنے پر تحریک انصاف بلوچستان کے رہنما کی رکنیت معطل
اختلاف رائے رکھنا سب کا حق ہے اسی طرح اختلاف رائے برداشت کرنا بھی سب کے لئے ضروری ہے۔ بڑے رہنما وہی ہوتے ہیں جن پر اگر خود بھی کوئی الزام لگے تو وہ اسے سنتے اور برداشت کرتے ہیں۔ اپنی صفائی دیتے ہیں۔ یہ کہیں نہیں ہوتا کہ ذرا کسی نے شکوہ شکایت کی الٹا اسی کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے۔ عمران صاحب میں بہت سی اچھائیاں بھی ہیں مگر اس بات کے سب شاکی ہیں کہ وہ ڈکٹیٹر والا مزاج رکھتے ہیں۔ ذرا خلاف مزاج کوئی بات ہوئی خان صاحب کا پارہ ہائی ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے ہوش میں نہیں رہتے۔ یہ رویہ انہیں ایک بلند پایہ سیاستدان اور رہنما بننے نہیں دے گا۔ رہنما تو تحمل سے بات سنتے ہیں وہ بھی اپنے ورکروں کی۔ اب بلوچستان میں تحریک انصاف کے رہنما یار محمد رند کے حوالے سے اگر بلوچستان ہی کے تنظیمی ساتھیوں کو کوئی شکایت ہے تو خان صاحب سنتے اس کا ازالہ کرتے مگر گذشتہ کئی دنوں سے یہ بلوچستان تحریک انصاف کا وفد بنی گالہ کے باہر دھرنا دیئے ہوئے ہے۔ خان صاحب ان سے بات کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ الٹا احتجاج کرنے والے وفد کے قائد نور محمد ڈومر کی پارٹی رکنیت معطل کر دی۔ اب تو ان بے چاروں کو بھی پتہ چل گیا ہو گا کہ کارکنوں کی اوقات خواہ پی پی پی میں ہو یا ایم ایل این میں یا پی ٹی آئی میں‘ کیا ہوتی ہے۔ سیاست کے اس کھیل میں اس وقت صرف اور صرف روپے کا زور ہی کمال رکھتا ہے۔ محنت اور خدمت کا کھوٹا سکہ اب یہاں چل نہیں سکتا۔ کیونکہ آج کل گرانی کا دور ہے....
٭٭٭٭٭٭