جمعرات ‘ 26 ؍ صفرالمظفر 1439ھ‘16 ؍ نومبر2017ء
سردیوں کا پہلا تحفہ ایل پی جی 5 روپے کلو مہنگی کر دی گئی۔
حکومت کی طرف سے عوام کو مہنگائی کے ایسے خوشنما تحفے وقتاً فوقتاً ملتے رہتے ہیں اور بے چارے مظلوم عوام حکومت کی طرف سے ملنے والے یہ تحفے قبول کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔ مگر کیا مجال ہے جو کسی کے منہ سے اف تک بھی نکلی ہو۔ بس دل ہی دل میں ایسے تحفے بند ہونے کی دعا کر رہے ہیں۔ اب اگر کوئی تف تف کہتا ہے تو یہ اسکا انفرادی فعل ہی تصور ہو گا۔
اب سردیوں کے موقع پر ایل پی جی مہنگی کرنی ایسے ہی ہے جیسے گرمیوں میں بجلی یا برف مہنگی کر دی جائے۔ عوام لاکھ شور مچائیں کیا مجال ہے حکمرانوں کے کان پر جوں تک رینگے۔ حالانکہ الیکشن قریب ہیں اور اس قسم کے فیصلے اور انکے بعد الیکشن میں عوام کے فیصلے کے بعد حکمرانوں کو اپنے سر سے جوئیں نکالنے تک کی فرصت نہیں ملے گی۔
عوام کی خاموشی ایک بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ برداشت کی بھی حد ہوتی ہے جب وہ ختم ہو جائے تو پھر لوگ خود اپنا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ حکمران اس بات کا کھوج لگائیں کہ ایسے فیصلے کون کر رہا ہے۔ وزیراعظم سے زیادہ کون ایل پی جی کے معاملات سے آگاہ ہو گا۔ وہ تو اس مرض کا کے نبض شناس ہیں۔ کم از کم وہی عوام کی جیب کا خیال رکھیں۔
سردیوں میں ایل پی جی کا استعمال بڑھ جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سارا منافع یکدم عوام پر بوجھ ڈال کر ہی کمایا جائے۔ گزشتہ تین ماہ میں اسکی قیمت جس سپیڈ سے بڑھی ہے اس سے عوام کا میٹر گھوم رہا ہے۔ جسکا نزلہ حکومت پر گر سکتا ہے۔
٭…٭…٭…٭
بارش کے بعد سموگ کا خاتمہ، عوام نے اطمینان کا سانس لیا
اس خطرناک سموگ نے جس طرح زندگی مفلوج کر دی تھی اور بیماریوں کو زور بخشا تھا اس سے عوام تنگ آ چکے تھے اور نوائے وقت کے قارئین دعا گو تھے کہ یہ سموگ ختم ہو۔ جلد ہی نوائے وقت کے قارئین کی دعائیں رنگ لائیں اور ابر کرم برسا جس کے بعد اس خطرناک سموگ سے عوام کی جان چھوٹ گئی جس کی وجہ سے لوگ ہلکان ہو رہے تھے۔
اس سموگ کی وجہ سے ناقدین نے حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہوا تھا۔ کئی شعلہ صفت مقررین تو اس سموگ کی آڑ میں حکومت کے خلاف لگائی بجھائی میں مصروف رہتے تھے۔ میڈیا سے لے کر جلسے جلوسوں تک اس سموگ کو موضوع بنا کر حکومت کے لتے لئے جا رہے تھے۔ اب حکومت کو نوائے وقت کی اپیل پران قارئین کی جانب سے کی گئی بارانِ رحمت کی دعائوں کے بارآور ہونے پر مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے۔
عالمی سطح پر سموگ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ چین، پاکستان اور بھارت ہی نہیں دیگر کئی ممالک بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔ یورپ بھی اس سے متاثر ہوتا ہے۔ مگر ان ممالک نے جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اسکے خاتمے کیلئے مؤثر اقدامات تلاش کر لئے ہیں۔ مگر پاکستان اور بھارت ہنوزاسکا شکار ہیں۔
بھارتی پنجاب میں فصلوں کی باقیات جلانے کے سبب جو دھواں دہلی سے ملتان تک پھیلتا ہے اس سے حالات خراب ہوتے ہیں۔ بھارت میں تو نئی دہلی کو باقاعدہ ’’گیس چیمبر‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ وہاں ہنوز یہ صورتحال برقرار ہے۔ مگر بفضل الٰہی پاکستان میں بارشوں کی وجہ سے سموگ دم توڑ رہی ہے اور فضا دوبارہ صاف شفاف ہو کر چمک رہی ہے۔
٭…٭…٭…٭
مجھے شریف خاندان سے تشبیہ نہ دیں: عمران خان
عمران خان نے درست کہا ہے کہ مجھے شریف خاندان سے تشبیہ نہ دیں۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ساری دنیا جانتی ہے جلسوں میں ان کا جو انداز تخاطب ہے۔ کم از کم شریف برادران نے جلسوں میں ایسی اوئے توئے کبھی نہیں کی۔ نہ ہی انہوں نے کبھی الزام تراشی کی ہے۔ انہوں نے خان صاحب کے بارے میں جو کچھ کہا ہے شائستگی اور اخلاق کے دائرے میں رہ کر کہا ہے۔ پھر خان صاحب کے کتنے ہی خلاف کیس عدالتوں میں دائر ہوتے وہ کسی میں بھی پیش نہیں ہوئے۔ الایہ کہ پانی سر سے گزرنے کی نوبت نہ آ گئی ہو۔ اس کے مقابلے میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نا اہل قرار دیا تو انہوں نے بلا قیل و قال اور حجت قومی اسمبلی کی رکنیت اوروزارت عظمیٰ چھوڑ دی۔ اگر وہ کہتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا تو یہ بھی اظہار تعجب تھا۔ اور اس اظہار تعجب میں وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ اور بھی بہت سے لوگ شامل ہیں۔
٭…٭…٭…٭
کامونکے میں اولاد نہ ہونے پر نشئی نے بیوی کو بیچ دیا
یہ ہمارے معاشرے میں پستی کی انتہا ہے۔ جس عورت کو ایک مرد شریک حیات کی شکل میں قبول کرتا ہے اسکے حقوق کا محافظ بنتا ہے۔ یہ نشے کے ہاتھوں زندہ درگور لوگ اسی عورت کو دور قدیم کی طرح غلام کی بنا کر فروخت کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ بھارت میں کورئوں نے دغا بازی سے جوئے میں شامل کر کے پانڈوئوں سے ان کی بیوی جیتی تھی۔ اسی طرح آج بھی ہمارے معاشرے میں جواری، شرابی، ہیرونچی چند پیسوں کی خاطر اپنی عزت کو نیلام کرنے سے باز نہیں آتے۔ یوں ساحر لدھیانوی کی بات آج بھی ہمارے سامنے سوال بن کر آتی ہے کہ مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں‘ آج بھی کہیں عورت کو بھائی کے‘ باپ کے یا ماموں اور چاچو کے ناکردہ گناہوں کے عوض فروخت کیا جاتا ہے یا قتل تو کہیں اسی عورت کو جوئے میں ہار جاتا ہے یا پھر یہ نشے کی لت میں مبتلا لوگ اسے پیسہ نہ دینے پر قتل بھی کرتے ہیں یا بیچ دیتے ہیں۔
اب اس کامونکی والے کیس میں جو بہت افسوسناک ہے۔ پولیس کا رویہ بھی پر اسرار نظر آتا ہے۔ شیخوپورہ اور کامونکی پولیس ہنوز اس بات پر تکرار کر رہی ہے کہ جائے وقوعہ کس کے حدود میں آتی ہے۔ گویا یہاں بھی عورت کی برآمدگی ضروری مسئلہ نہیں جائے وقوعہ اہم مسئلہ ہے۔ معلوم نہیں مقدمہ عورت کی برآمدگی کا بنانا ہے یا علاقے کا۔