جمعة المبارک‘ 20 رمضان المبارک ‘ 1438ھ‘ 16 جون 2017ء
پشاور میں 30روز کیلئے دفعہ 144نافذ، سات مقامات پر جلوس نکالنے پر پابندی
بڑی حیرت کی بات ہے کہ جو جماعت پورے پاکستان میں جہاں چاہے مجمع لگانے جلسے کرنے جلوس نکالنے کو اپنا حق پشتنی سمجھتی ہے اسی جماعت کے زیر کنٹرول صوبے میں عوام کے جمہوری حق پر پابندی۔ عوام کو اچھی طرح یاد ہے کہ اسلام آباد ریڈ زون میں دھرنا اور جلسہ کرنے کے مسئلہ پر تحریک انصاف والے کسی قانون کسی پابندی کو تسلیم کرنے پر تیار ہی نہیں ہوتے تھے۔ جی بھر کر من مانی کرکے من پسند جگہ پر پہنچ جاتے تھے۔ اب پشاور میں ایسی کون سی افتاد ٹوٹ پڑی ہے کہ وہاں 30یوم کے لئے دفعہ 144نافذ کر دی گئی۔ 7 مقامات پر جلسے کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس وقت تو پشاور میں لے دے کر صرف ڈاکٹروں کی ہڑتال چل رہی ہے جنہیں سڑکوں پر آنے سے قبل ہی پولیس والے ڈنڈا ڈولی کرکے حوالات پہنچا دیتے ہیں۔ اسکے بعد اگلے روز ہسپتال میں گھس کر ہڑتالی ڈاکٹروں کی جو خاطر تواضع کی گئی وہ امید ہے ڈاکٹرز کو ہمیشہ یاد رہے گی روزے کی حالت میں لاٹھیوں، بندوقوں، ٹھڈوں اور مکوں سے مار کھانا شاید لذیذ سے لذیذ افطاری سے زیادہ مزیدار محسوس ہوا ہو گا۔ چلیں اس میں برا ماننے والی کیا بات ہے۔ یہ خان صاحب کا صوبہ ہے جہاں بقول ان کے نیا پاکستان ایک نئی شان سے جنم لے رہا ہے۔ اب نئے پاکستان میں باتیں بھی تو نئی نئی ہی ہوں گی اس لئے حکومت خیبر پی کے نے رمضان المبارک کا تقدس اور احترام برقرار رکھتے ہوئے پشاور میں دفعہ 144نافذ کر دی ہے تاکہ لوگ رش اور سن سٹروک سے محفوظ رہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ خیبر پی کے حکومت کو ڈاکٹروں کی صحت کی کتنی فکر ہے۔
....٭....٭....٭....٭....
پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا واحد راستہ مذاکرات ہے: سلمان خان
جہاں سچ کہنے پر زبان کٹتی ہو وہاں بالی وڈ کے سلمان خان کو کیا ہوا کہ سچ کہنے لگے۔ وہ بھی نہایت کڑوا سچ جس کی تلخی سے اب بہت سے لوگوں کے منہ بگڑ جائیں گے اور ان کی زبانیں زہر اگلنے لگیں گی۔ پہلے ہی بھارت میں مسلمانوں پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے۔ خود سلمان خان کبھی تیز رفتاری کبھی ہرن کے شکار پر تھانے حوالات اور کچہریاں بھگت چکے ہیں۔ مگر لگتا ہے ابھی تک انہوں نے باقی مصلحت پسند مسلم اداکاروں کی طرح سبق حاصل نہیں کیا۔ شاید وہ بیچارے روٹی پانی کے زیادہ ہی محتاج ہیں۔ سلمان خان لگتا ہے اپنی فلموں کی طرح دبنگ ہیرو حقیقی زندگی میں بھی ہیں اسی لئے ایسا بیان دیا ہے۔ جس پر انتہا پسندوں نے انہیں حد میں رہنے کی وارننگ بھی دے دی ہے۔ اب معلوم نہیں حد کیا ہے۔ سلمان خان نے تو یہی کہا ہے کہ جنگ میں لوگ مرتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں گھرانے برباد ہوتے ہیں۔ اس لئے مذاکرات سے صلح سے امن کی راہ ہموار کرکے جنگ کی راہ بند کی جائے۔ ہاں جنہیں جنگ سے پیار ہے انہیں بارڈر پر لڑنے کیلئے بھیجا جائے۔ ویسے تو یہ بات سب جانتے ہیں کہ مسلمان موت سے ڈرتا نہیں شہادت ان کیلئے سب سے پسندیدہ چیز ہے۔ مگر یہ مہاشے جو فوٹو کھینچوانے کےلئے گلا پھاڑ پھاڑ کر جنگ کی باتیں کرتے ہیں ان کی تو موت کے نام سے ہی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔ یہ صرف درشنی پہلوان ہیں۔ یہ بات بھارتی حکمران بھی جانتے ہیں اور بھارتی آرمی والے بھی اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ وہ سلمان خان کی سچی باتوں پر کان دھریں۔ خواہ مخواہ شور نہ مچائیں۔
....٭....٭....٭....٭....
ایسا لگا جیسے پاکستانی شائقین دلہن لینے آئے ہوں: بی بی سی
یہ تو ہم پاکستانیوں کی فطرت ہے۔ وہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ نفرت ہو یا محبت کھل کر اس کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے شادی بیاہ ہو یا موت کا غم دونوں مواقع پر ان کی جذباتی کیفیت سب سے جدا نظر آتی ہے۔ ذرا اپنے اردگرد ہی دیکھ لیں کہیں کوئی بارات جا رہی ہو تو راہ چلتے منچلے خود ہی اس کے بینڈ باجے پر رقصاں ہوتے ہیں۔ اسی طرح جنازہ ہو تو بے شمار کاندھا دینے والے اردگرد سے آ کر شامل ہوتے ہیں۔ یہ خوبصورت رسم و رواج یورپ میں اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ جہاں جذبات اور احساسات کی ڈور ٹوٹتی جا رہی ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں ہی دیکھ لیں پاکستانی جیت پر کس طرح جشن منایا گیا آتش بازی کی گئی۔ یہی وجہ ہے جب کارڈف کے صوفیہ گارڈن سٹیڈیم میں جب پاکستانی ٹیم سری لنکا کو ہرانے کے بعد انگلینڈ کے خلاف میچ کھیلنے آئی تو پورے برطانیہ سے کرکٹ کے شائقین اپنی قومی ٹیم کا حوصلہ بڑھانے سٹیڈیم کی طرف کھنچے چلے آئے۔ پورے سٹیڈیم میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے پرچموں کی بہار تھی۔ کھلاڑیوں کے ساتھ شائقین کے بھی حوصلے بلند تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی میلہ لگا ہے۔ حالانکہ انگلینڈ کے ہارنے کے امکانات بہت کم تھے مگر سر پھرے جنونی پاکستانی ہار جیت سے بے نیاز ڈھول باجوں کے ساتھ سٹیڈیم کی طرف رواں دواں تھے۔ رنگ برنگے کپڑے پہنے اور کپڑوں اور چہروں پر پاکستانی پرچم پینٹ کرکے ناچتے گاتے جھومتے شائقین کو دیکھ کر انگلینڈ والے بھی حیران تھے۔ بی بی سی والوں کو بھی یہ اچھلتے کودتے شائقین کسی بارات کا حصہ معلوم ہوئے۔
....٭....٭....٭....٭....
سندھ میں کالعدم مذہبی جماعت کی سرگرمیوں پر نیکٹا کو تشویش
دراصل اس وقت بے چاری سندھ حکومت اپنے صوبے میں ترقیاتی کاموں پر توجہ دینے میں مصروف ہے۔ بجٹ بھی تازہ تازہ آیا ہے۔ اس کی بندر بانٹ پر بھی توجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز کراچی سنٹرل جیل سے دہشتگرد فرعون اپنے ساتھ منا کو لے کر فرار ہو گیا تو نزلہ صرف جیل کے عملے پر گرا۔ یہ منا وہ نہیں جو عام معنوں میں لیا جاتا ہے چھوٹا سا معصوم گول مٹول بچہ۔ یہ منا اور فرعون خطرناک دہشت گرد ہیں۔ اب یہ اطلاعات ہیں کہ سندھ میں پھر کالعدم مذہبی تنظیمیں اپنی سرگرمیاں تیز کئے ہوئے ہیں تو اس سے کیا ہو گا۔ جو کچھ لوگ پکڑے بھی گئے تو انہیں ضمانت پر رہائی ملے گی یا وہ خود جیل سے بھاگ جائیں گے۔ اب نیکٹا جو دہشت گردی پر قابو پانے کےلئے وجود میں آئی ہے وہ از خود ایکشن کیوں نہیں لیتی۔ کیا کسی سانحہ کے بعد ہمارے اداروں اور سندھ حکومت کو ہوش آئےگا۔ خدا خدا کرکے ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات ملی ہے۔ مگر ان کے جو چیلے چانٹے کونوں کھدروں میں چھپے ہیں وہ کب تک چین سے بیٹھیں گے۔ حکومت سندھ ہوش کے ناخن لے۔ فرعون کو منّے سمیت برآمد کرائے۔ یا پولیس مقابلے میں اڑائے یہ اس کی مرضی ہے۔ حکومت سندھ کو اس طرف بھی توجہ دینا ہو گی تاکہ دہشت گردی کا ناسور جہاں بھی ہو اسے اکھاڑ پھینکا جا سکے اسی میں سب کی بہتری ہے۔
....٭....٭....٭....٭....٭....