پیر ‘19 ذیقعدہ 1435 ھ ‘ 15 ؍ستمبر2014ء
سکرپٹ سب نے مل کر لکھا، آخری صفحے پر کیا لکھا ہے بعد میں بتائوں گا:شجاعت۔ اب آخری صفحہ تک آتے آتے پلوں کے نیچے سے نجانے کتنا پانی بہہ چکا ہو گا۔ کتنی راتیں سحر میں بدل چکی ہوں گی اور کتنے دن شب میں۔
ویسے بھی اگر ناول بور ہونا شروع ہو جائے تو پھر آخری صفحہ کون پڑھتا ہے۔ یار لوگ درمیان میں ہی ناول بند کرکے رکھ دیتے ہیں۔ اسلام آباد میں جاری کہانی کا ایسا ہی انجام ہوتا نظر آتا ہے۔ اب شجاعت صاحب آخری صفحہ پڑھنے کی بجائے مٹی پائو کی اپنی سنہری پالیسی پر عمل کریں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ ایسا نہ ہو کہ پھر وہ…؎
سیونی میرے دل دا جانی،
ہائے نی دل توڑ گیا ہائے نی مُکھ موڑ گیا،
والا گیت گاتے ہوئے نظر آئیں اور سکرپٹ لکھنے والے ان کی خواہش کے مطابق سب کے کان پکڑائیں یا نہ پکڑائیں۔
البتہ خود ان کے کان پکڑ لیں۔ بدقسمتی سے چند روز قبل خود چودھری شجاعت نے ایسی ہی خواہش کا دوسروں کے لئے اظہار کیا تھا مگر خطرہ ہے کہ اب یہ خواہش ان کے گلے نہ پڑ جائے اور انہیں کان نہ پکڑنے پڑے کیونکہ انہوں نے جس طرح جنرل (ر) مشرف کو بار بار کاندھوں پر چڑھا کر صدر بنوانے کے دعوے کئے تھے۔ وہ ان کی معزولی کے بعد سب ہوا میں اڑا دیئے اور بھاگ کر طاہر القادری کی ڈولی کو کندھا دینے پہنچ گئے اور اب پھر کھلم کھلا ’’سکرپٹ لکھنے‘‘ والوں کی دہائی دے رہے ہیں۔ اس پر ان کی گوشمالی کا خطرہ بڑھ گیا ہے جس میں کہیں ’’گجراتی کو ملے گجراتی کرکے لمبے ہاتھ‘‘ جیسا نیا محاورہ تخلیق نہ ہو جائے اور ’’مٹی پائو‘‘ والا محاورہ پس پشت چلا جائے۔ یوں ہمارے سابق ڈپٹی وزیراعظم کو بھی سابق وزیراعظم اور وزیر داخلہ سمیت کان پکڑنے پڑیں۔
٭…٭…٭…٭
بھارت میں ہندوئوں کے دیوتا ’’ہنومان‘‘ کو شناختی کارڈ جاری ہو گیا۔ ایسے انہونے واقعات تو برصغیر کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ جن سے عوام کو کچھ دیر لطف اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ ورنہ اب الف لیلہ، باغ و بہار، قصہ چہار درویش۔ سندباد جہازی جیسی انوکھی اور انہونی کہانیاں پڑھنے کا وقت کہاں رہ گیا ہے۔ پاکستان میں بھی مرنے والوں کو زندہ اور زندوں کو مردہ ثابت کیا جا سکتا ہے۔ غائب کو حاضر اور حاضر کو غائب قرار دیا جا سکتا ہے۔ یقین نہ آئے تو ذرا پولیس کی جاری کردہ فہرستوں پر نظر ڈالیں۔ یا ووٹر لسٹوں پر کئی مرے ہوئے زندہ ملیں گے اور کئی زندوں کو فوت شدگان میں ڈالا جا چکا ہو گا۔ مگر یہ کرشمہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی دیوتا کو حاضر سروس یا موجود جان کر اسے شناختی کارڈ جاری کیا گیا ہو۔ اور یہ کام ہندوستان میں ہی ممکن ہے۔
بہرحال اب ’’ہنومان جی‘‘ تو مستند بھارتی ہو گئے ہیں انہیں مبارک ہو کہ ان کا شناختی کارڈ بھی مل گیا۔ یہ تو بی جے پی حکومت کا کمال ہے۔اب لگے ہاتھوں انہیں چاہئے کہ وہ برہما، وشنو، شیو، رام، سیتا، لچھمن، رادھا، کرشن، کالی، لکشمی اور گنیش کے بھی کارڈ جاری کریں تاکہ ان کی مذہبی جنونیوںسے مقبولیت میں مزید اضافہ ہو۔
٭…٭…٭…٭
الطاف حسین نے کارکنوں کے اصرار پر ایک بار پھر ایم کیو ایم کی قیادت چھوڑنے کا فیصلہ واپس لے لیا۔ الطاف بھائی اتنی بار استعفٰی دے کر واپس لیتے آ رہے ہیں کہ ہمیں تو لگتا ہے کہ یہ ورلڈ ریکارڈ بن چکا ہو گا۔ یا بننے والا ہے۔
کبھی کبھی تو شرارتی مخالفین اسے ڈرامہ بازی بھی کہہ دیتے ہیں۔ لیکن سب جانتے ہیں ایم کیو ایم الطاف بھائی کی قیادت میں ہی کامیاب ہے،چاہے وہ لندن سے ہی کیوں نہ ہو۔یہ تو ہماری قوم کی شان ہے کہ وہ ہر وقت ایک حکم پر نعرے لگانے ریلیاں نکالنے اور جلسے کرنے پہنچ جاتی ہے۔ لگتا ہے پوری قوم کو فراغت ہی فراغت ہے۔ اسلام آباد میں دیکھ لیں۔ عمران اور قادری کا سیاسی و انقلابی دھرنا پروگرام زوروشور سے جاری ہے۔ اور تھرڈ ایمپائر کے انتظار میں نئے پاکستان کے داعی عمران خان…؎
’’سجنا اے محفل اساں تیرے لئی سجائی اے‘‘
کا راگ الاپ رہے ہیں اور دوسری طرف کنٹینر بابا تیسری طاقت کی فوری حاضری کے لئے جلالی وظیفہ کا چلہ کاٹ رہے ہیں مگر لگتا ہے ان دونوں کو …؎
دل کے ارمان آنسوئوں میں بہہ گئے
ہم وفا کر کے بھی تنہا رہ گئے
کا نغمہ زیر لب گنگناتے ہوئے بار بار خلائو میں گھورتے ہیں یہ الگ مسئلہ ہے کہ ان کے شرکا کو اعزازیہ مل رہا ہے۔ کھانا پینا بھی میسر ہے۔ کھیل کود کے ساتھ ساتھ تفریح طبع کے مواقع بھی ملتے ہیں۔ موسیقی کے پروگراموں کے ساتھ ساتھ محافل ذکر و فکر بھی چل رہی ہیں۔ شرکا اور مریدوں کو روزانہ تقویت قلب کے لئے بھاشن بھی ملتا ہے۔ آنے والے کل کے سہانے خواب دکھا کر روز موجود سے بیگانہ کیا جاتا ہے کہ کہیں ان کا نشہ ٹوٹنے نہ پائے۔ اور یہ خششین کی طرح خوابوں کی جنت میںحورو خیام اور خیالی جنت کے مزوں میں ڈوبے رہے۔
یہی ماحول کراچی میں الطاف بھائی نے بنا رکھا ہے۔مگر بار بار مشرف کے غم میں آنسو بہانے کے باوجود تیسری قوت کو ترس نہیں آ رہا اور کہیں سے بھی کوئی خوش کن اشارہ نہیں مل رہا ۔
باقی ر ہے کارکن تو وہ حال مست اور مال مست بن کر نعرے لگاتے، بھنگڑے ڈالتے اپنے قائدین کے سامنے سرنگوں رہتے ہیں۔ انہیں سر اٹھانے کی اجازت نہ کل تھی نہ آج ہے۔ کیونکہ ایک بار یہ سر اٹھ گئے تو قیادت پر قیامت آ سکتی ہے۔