بدھ ‘ 25 ؍ صفرالمظفر 1439ھ‘15 ؍ نومبر2017ء
نیب کا بلوچستان میگا کریشن کیس میں ملوث خالد لانگو کا گھر سب جیل قرار دینے کا فیصلہ چیلنج کرنے کا فیصلہ
ویسے خالد لانگو جتنے بڑے کرپشن کیس میں پکڑے گئے ہیں۔ اس کے بعد تو ان کے گھر کو اگر شاہی جیل قرار دیا جائے تو بھی کچھ غلط نہ ہو گا۔ کیونکہ جتنا بڑا ملزم ہو اسے اتنا بڑا وی آئی پی پروٹوکول تو ملنا چاہیے۔ آخر بہت سے بڑے بڑے ملزموں کو بوجہ علالت بیماری کے نام پر بڑے بڑے وی آئی پی ہسپتالوں میں بھی تو ایسا ہی پروٹوکول دستیاب ہوتا ہے۔ خالد لانگو بھی ایک بڑی شخصیت ہیں۔ ان کا کارنامہ بھی زریں حروف سے پاکستان کی کرپشن کی تاریخ میں لکھا جائے گا۔ اب نیب والوں کو اچانک خیال آ گیا ہے کہ صوبائی حکومت کی طرف سے خالد لانگو کے گھر کو سب جیل قرار دیکر موصوف کو وہاں آرام سے قید رکھا گیا ہے۔ یہ تو وہ قید ہے جس کے لئے بقول شاعر:
’’قید مانگی تھی رہائی تو نہیں مانگی تھی‘‘ والا معاملہ بنتا ہے کیونکہ گھر جتنی آرام دہ جیل تو دنیا میں کہیں اور نہیں ہو گی۔ خیر اب نیب والوں نے خالد لانگو کو سونے کی لنکا سے نکالنے کے لئے کمر کس لی ہے اور صوبائی حکومت کا یہ فیصلہ عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان کو ملنے والی یہ خصوصی رعایت ختم ہو اور انہیں واقعی جیل بھیجا جائے مگر شاید نیب والے بھول رہے ہیں کہ ایسے قیدیوں کے لئے جیلوں اور ہسپتالوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ انہیں وہاں بھی وہی سہولیات دستیاب ہوتی ہیں جو گھر میں ہیں۔ ان کے لئے جیل اور گھر یکساں ہوتا ہے۔ وہ دور گیا جب حق پرستوں کو جیلوں میں کال کوٹھری نصیب ہوتی تھی اور چکی پیسنا پڑتی تھی۔ اب تو جیل ہو یا گھر ہر جگہ ان وی آئی پی ملزمان کو آرام ہی آرام ہے۔
٭…٭…٭
مسلم لیگ ناکام ہو چکی، عمران خان کو الیکشن ہارنے کا ڈر ہے: بلاول
ناقدین کے مطابق یہ ادھورا جملہ بلاول کی زبان سے نکلا ہے۔ پورا سچ یا جملہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ناکام ہو چکی۔ عمران خان کو ہارنے کا ڈر ہے اور پیپلز پارٹی کو الیکشن جیتنے کی امید نہیں۔ اب کھڑکیاں دروازے تو بند کئے جا سکتے ہیں مگر لوگوں کے منہ بند کون کرے۔ پنجاب میں بلاول جی اب جہانگیر بدر کے گھر برسی پر جائیں یا سائیں ہرا کے گھر تعزیت کے لئے، جو بے چارہ ساری زندگی ہرا ہرا دیکھنے کی خواہش لئے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ دو بار پی پی پی کی حکومت آئی مگر ’’دن پھرے ہیں تو بس وزیروں کے‘‘ غریب کارکنوں کے دن نہیں پھرے۔ پہلے بی بی رانی کی حکومت تھی پھر بابا زرداری کی مگر سائیں ہرا کچھ نہ پا سکا۔ پیپلز پارٹی جو کبھی غریبوں کی جماعت تھی۔ اب پیسے والوں، امیروں کی نمائندہ بن چکی ہے۔ ایک بھی غریب چہرہ اس لش پس کرتی قیادت میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ رہی بات مسلم لیگ کی ناکامی کی تو یہ طفل تسلی ہے جو بلاول اپنے دل کو دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کو ہار کا ڈر اگر ہوتا تو وہ قبل از وقت الیکشن کا مطالبہ کیوں کرتی اور وہ رنگ میں سب سے پہلے کیوں اترتی۔ رہی بات پی پی پی کو روکنے کی تو اس کی حماقت کون کر سکتا ہے۔ یہ ضرور واہمہ ہو گا۔ الیکشن جب بھی ہوئے دیکھتے ہیں کون نمبر ون اور کون نمبر ٹو ہوتا ہے۔ ویسے جن روکنے والی قوتوں کی بات بلاول جی کر رہے ہیں وہ بھی سیانے ہیں اول یا دوئم آنے والوں پر ہی بازی لگاتے ہیں۔
٭…٭…٭
لوگوں نے جائیدادیں بنائیں ہم سرخپوشوں کو نظریہ ورثے میں ملا، منزل باچا خان بتا چکے ہیں۔ اسفند یار ولی
رسی جل گئی پر بل نہیں گیا۔ پورے افغانستان میں کسی بھی جگہ چلے جائیں کسی سے بھی خان عبدالغفار کا پوچھ لیں کسی کو ان کا پتہ ہی نہیں ہو گا کہ موصوف کون ہیں اور کہاں دفن ہیں۔ مگر ان کے ورثے کے دعویدار ابھی تک انہیں فخر افغان کہتے ہیں۔ حالانکہ ان کا سب سے بڑا فخر اور اعزاز سرحدی گاندھی کہلانا تھا۔ انہوں نے جو منزل خان عبدالولی خان اور اسفند یار ولی کو بتائی تھی وہ بھی کب کی کھوٹی ہو چکی۔ افغانستان ایک علیحدہ ملک اور پاکستان ایک حقیقت بن کر سب کے سامنے ہے۔ ان کی سرحدیں عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔ ایک آدھ سیاسی پارٹی اور اس کے رہنما نہ مانیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے قیام پاکستان کو بھی قبول نہیں کیا تھا مگر خیبر پی کے کے غیور پختون عوام نے قیام پاکستان کے حق میں اپنا حق رائے دہی استعمال کر کے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اب اگر اسفند یار ولی تسلیم نہیں کرتے تو کوئی کیا کہہ سکتا۔ مگر حقیقت یہ ہے۔ خیبر پی کے سے لے کر کراچی تک پاکستان کے عوام اپنی حقیقی منزل پا چکے ہیں۔ اب انہیں کوئی بھی جھوٹی منزل کے خواب دکھا کر گمراہ نہیں کر سکتا۔ خیر سے خود سرخپوشوں کے قافلے نے قیام پاکستان کے بعد اپنے ورثے میں ملنے والی جائیدادوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ فی الحال دیگ کے ایک چاول کے دانے کے طور پر حاجی غلام احمد بلور کا نام اس لئے حاضر ہے کہ موصوف کو سب جانتے ہیں باقی کس کس کا نام لیں اس کے لئے ایک پوری کتاب درکار ہے۔ کاش اسفندیار ولی جب خیبر پی کے حکمران تھے وہ اپنے صوبے کے مسائل حل کرنے میں اتنا زور لگاتے جتنا بیان بازی پر لگاتے ہیں تو عوام عمران خان کو ووٹ نہ دیتے۔
٭…٭…٭
پی ایس ایل: معین خان کے بیٹے اعظم خان کوئٹہ گلیڈیٹرز میں منتخب
کوئٹہ گلیڈیٹرز کے کھلاڑیوں کی سلیکشن ہو گئی۔ اس ٹیم کے ہیڈ کوچ معین خان ہیں۔ پرانے کھلاڑی ہیں کرکٹ کے۔ ظاہر ہے جو جتنا پرانا ہو گا اتنا ہی ماہر بھی ہو گا داؤ پیچ سے۔ اب کوئٹہ گلیڈیٹرز کے کھلاڑیوں میں امید تھی کہ کوئٹہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کرکٹ کے نوجوان کھلاڑی بسم اللہ خان کا نام بھی ضرور ہو گا۔ مگر افسوس ایسا نہیں ہوا اور ایک ابھرتے ٹیلنٹ اور نئے کھلاڑی کو جو اپنے زور سے اس مقام تک پہنچا ہے۔ ڈراپ کر دیا گیا اس جگہ ہمیں معلوم نہیں کون لیا گیا مگر اس ٹیم میں جو کرکٹ کی ہے ایک پہلوان نما کھلاڑی کو دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کیونکہ یہ کوئی ریسلنگ کی ٹیم نہیں تھی یہاں پہلوانوں کا کیا کام۔ یہ پہلوان اگر ریسلنگ ٹیم کا حصہ بنتے تو کوئی اعتراض نہ کرتا۔ مگر کرکٹ میں ان کا کیا کام۔ موصوف کا نام اعظم خان ہے اور ان کی سب سے بڑی پرفارمنس یہ ہے کہ وہ معین خان کوئٹہ گلیڈیٹرز کے ہیڈ کوچ کے بیٹے ہیں۔ کاش بسم اللہ خان کے والد بھی کوئی نامور کھلاڑی ہوتے تو ان کا انتخاب بھی آسان ہو جاتا۔ ریسلنگ کو چھوڑیں اگر اعظم خان کو فٹبال ٹیم میں گول کیپر ہی بنایا جائے تو کم از کم اپنی ٹیم کے لئے دیوار چین ثابت ہو سکتے ہیں۔ ویسے کسی کو کچھ کہنے کا حق نہیں مگر اس سے بہتر تھا معین خان خود کو سلیکٹ کرا لیتے۔ کرکٹ میں کون سی عمر کی قید ہے۔ ابھی ہم بسم اللہ خان سے یہی کہہ سکتے ہیں کہ غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی۔ ہیرے کو کوئی نہ کوئی جوہری خود ہی پرکھ لے گا۔ آپ کی بھی باری جلد آنے والی ہے۔ کوئٹہ والوں کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔
٭…٭…٭