دبئی میں ٹریک ٹو سطح پر پاک بھارت مذاکرات کا انعقاد
ایک طرف بھارت کنٹرول لائن پر آئے روز گولہ باری کر کے بے گناہ شہریوں کو مار رہا ہے املاک تباہ کر رہا دوسری طرف یہ ٹریک ٹو مذاکرات کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔ کیا پاکستان کے قانون ساز، فوجی اور سرکاری حکام جو اس ڈرامے میں کام کر رہے ہیں وہ ان حقائق سے بے خبر ہیں کہ بھارت ٹریک ٹو ہو یا ٹریک ون‘ ظاہری ہوں یا باطنی مذاکرات ہر قسم کا یہ ڈرامہ عالمی برادری کو بے و قوف بنانے کے لئے رچاتا ہے اور پاکستان والے نہایت بھولے پن سے اس کے اس جھانسے میں آ جاتے ہیں اور چل پڑتے ہیں مذاق رات کھیلنے۔ جیسے ہی بھارت کو ذرا سی ڈھیل ملتی ہے وہ یہ مذاق رات ہمارے منہ پر دے مارتا ہے اور ٹریک ٹو کی ٹیبل الٹ دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد ہمارے یہ بھولے بادشاہ سابق سفارتکار، قانون ساز اور آرمی افسران منہ بسورتے ہوئے کونوں کھدروں میں دبک جاتے ہیں۔ بھارت کھلے عام ہماری سرحدوں پر گولہ باری کرے، کشمیر میں قتل عام کرے، پاکستان میں جاسوس بھیجے اور مذاکرات خفیہ کرے۔ بہتر تو یہ ہے کہ کھلے عام بھارت سے کہا جائے کہ وہ اپنا ٹریک ٹو پالیسی والا پاندان اٹھا لے جو کچھ کرنا ہے کھلے عام کرے تاکہ عالمی برادری کو پتہ چلے کہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ ٹریک ٹو مذاکرات صرف ڈرامہ بازی ہے۔
٭…٭…٭…٭
جاولد لطیف 8 اور مراد سعید کو 2 روز کیلئے معطل کیا جائے دونوں معافی مانگیں، پارلیمانی کمیٹی
پارلیمنٹ کی لابی میں جو کچھ ہوا وہ ہماری پارلیمانی تاریخ کے شرمناک ابواب میں سے ایک کہلائے گا۔ جاوید لطیف کی طرف سے گھریلو خواتین کے بارے میں نازیبا جملوں کی ہر ایک نے مذمت کی ہے۔ اس کے بعد پارلیمنٹ کی لابی میں مراد سعید اور جاوید لطیف کے درمیان بدکلامی اور مکا بازی کو بھی کسی طور اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جا سکتا۔ جس کی براہ راست کارروائی سب نے میڈیا پر دیکھی۔اب پارلیمانی کمیٹی نے اس معاملے کی مکمل چھان بین کے بعد دونوں کیلئے جو سزا تجویز کی ہے۔ امید تھی دونوں اس کو قبول کر کے یہ افسوسناک باب بند کریں گے۔
جاوید لطیف پہلے بھی معافی اور معذرت کر چکے ہیں اب پارلیمانی کمیٹی کے اعلان کیمطابق 21 مارچ کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں دونوں معافی مانگیں گے اور جاوید لطیف کی 8 دن اور مراد سعید کی 2 دن کیلئے رکنیت معطل کی گئی ہے تاکہ آئندہ کسی کو ایسا کرنے کی جرأت نہ ہو۔ مراد سعید کا کہنا ہے وہ کسی صورت یہ پابندی قبول نہیں کریں گے۔ اب تحریک انصاف کے قائد کو چاہئیے کہ وہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے کرائیں۔ اب اس سے زیادہ اور ہمارے پارلیمانی ممبران کی بے توقیری اور کیا ہو سکتی ہے کہ پوری قوم شیم شیم کہہ رہی ہے۔
لاہور میں 1200 روپے سالانہ کچرا ٹیکس لگا دیا گیا
لوجی یہ ہوتی ہے عوامی حکومت پہلے ہی پانی کے بلوں میں ویسٹ مینجمنٹ کے نام پر رقم وصول کی جا رہی ہے۔ جس کے باوجود نالیاں اور گٹر اکثر مقامات پر ابل ابل کر واسا والوں کی حسن کارکردگی کا پول کھول رہے ہوتے ہیں اب یہ کچرا اٹھانے کے نام پر 1200 روپے سالانہ ٹیکس کی وصولی کا فیصلہ مقامی حکومت کی لوٹ مار پروگرام کا ایک ذریعے بنے گا۔ لاہوری میں تو سرکاری عملہ بڑی سڑکوں یا افسران اور وزراء کے گھر پر کام کرتا ہے۔ گلی محلوں میں نجی صفائی کرنے والے ماہانہ تنخواہ لے کر یہ کام کرتے ہیں۔
اب لاہوری یہ 1200 روپے کس خوشی میں ادا کریں۔ کئی شریف لوگ تو بدست خود اپنے گھر کا کچرا اٹھا کر کوڑے دن میں ڈالتے ہیں۔ نالوں کے قریب رہنے والے یہ کوڑا خود نالہ برد کرتے ہیں۔ جب سب کچھ عوام نے خود کرنا ہے تو پھر یہ کچرا ٹیکس وہ کیوں دیں۔ اب کہیں لاہوری حکومت کی طرف سے پھینکا جانے والا یہ کچرا بم کیچ کر کے واپس انہی کی طرف نہ اچھالیں اور تنگ آمد بجنگ آمد کے مطابق اپنا سارا کچرا سڑکوں گلیوں میں بکھیر کر لاہور کو بھی کراچی نہ بنا دیں کہ حکومت 1200 روپے ٹیکس لے اور روز یہ کچرا اٹھائے…
٭…٭…٭…٭
مولانا طارق جمیل نے وینا ملک اور اسد خٹک میں صلح کرا دی
ایک گھر کو ٹوٹنے سے بچانا بہت بڑا ثواب ہے۔ مولانا طارق جمیل نے جس طرح وینا اور اسد کے درمیان تلخیاں ختم کرنے اور خلع کا معاملہ ختم کرانے میں کردار ادا کیا وہ قابل ستائش ہے۔ ویسے بھی اس کام میں کافی علماء کرام دلچسپی لے رہے تھے جامعہ بنوریہ والے بھی ان دونوں کے درمیان علیحدگی روکنے میں مصروف تھے مگر کامیابی کا سہرا مولانا طارق جمیل کے سر بندھ گیا اور باقی دیکھتے رہ گئے۔
اب جس طرح یہ معاملہ اچھالا گیا وہ مشکوک ہے۔ میڈیا پر جس طرح اس کی تشہیر ہوئی اور یہ خبر بریکنگ نیوز بنی کہیں یہ سب کسی پبلسٹی مہم یا اپنی مقبولیت کیش کرانے کا معاملہ تو نہیں تھا۔ لڑائی جھگڑے ہر گھر میں ہوتے ہیں۔ مگر انہیں اس طرح سرعام اچھالا نہیں جاتا۔ کیونکہ ایک مرتبہ شیشے میں بال آ جائے تو وہ لاکھوں معافیوں اور معذرتوں سے بھی ختم نہیں ہوتا۔ اب ہمارا قومی معیار اور ذہنی شعور یہ رہ گیا ہے کہ ہم شادی بیاہ طلاق خلع جیسے گھریلو موضوعات کو بھی قومی معاملہ بنانے لگے ہیں۔ معلوم نہیں یہ زوال کی نشانی ہے کہ نہیں۔ چلیں شکر ہے وینا اور اسد کا گھر مولانا طارق جمیل کی وجہ سے بچ گیا ورنہ لگتا تھا یہ علیحدگی کہیں پوری قوم کو تقسیم نہ کر دے۔