جمعۃ المبارک ‘26 ؍ ربیع الاوّل 1439ھ‘15 ؍ دسمبر2017ء
کراچی میں ٹارگٹ پورا کرنے کا انوکھا انداز‘ سیٹ بیلٹ نہ ہونے پر ٹریفک پولیس نے موٹر سائیکل سوار کا چالان کردیا۔
یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں‘ ہمارے ہاں پولیس کی ایسی پھرتیاں عموماً منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ انہیں جب ٹارگٹ پورا کرنے کا حکم ملتا ہے تو ان کا سارا نزلہ بے چارے موٹر سائیکل سواروں اور رکشہ ڈرائیوروں پر گرتا ہے۔ بعض اوقات تو سگنل پر کھڑے موٹرسائیکل سوار کو شاید اس جرم میں دھرلیا جاتا ہے کہ اس نے اشارے کی پابندی کیوں کی۔ شومئی قسمت اگر اسکی موٹرسائیکل کے کاغذات مکمل ہوں‘ اشارے کام کرتے ہوں‘ ہارن ہو‘ لائٹ بھی کام کرتی ہو اور سر پر ہیلمٹ بھی موجود ہو تو ’’ٹارگٹ کلر‘‘ کو اپنا یہ شکار ہاتھ سے جاتا نظر آتا ہے۔ جب اس سے کچھ نہیں بن پاتا تو وہ موٹرسائیکل صاف نہ رکھنے پر ہی چالان کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ کراچی کے اس شریف آدمی نے پولیس اہلکار کو یقینا بتایا ہوگا کہ جناب سیٹ بیلٹ تو گاڑی میں ہوتی ہے‘ موٹر سائیکل میں کہاں سے آگئی‘ اسکے باوجود سنتری بادشاہ نے 520 روپے کا سیٹ بیلٹ نہ ہونے کا چالان کاٹ کر پرچی اسکے ہاتھ میں پکڑا دی۔ اگر ہمارے یہ شیرجوان کسی کار سوار کا ہیلمٹ نہ پہننے پر چالان کرسکتے ہیں تو موٹرسائیکل سوار سیٹ بیلٹ نہ لگانے پر کیوں مستوجب سزا نہیں ہو سکتا۔
ایک خان صاحب اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کی غرض سے موٹرسائیکل سواروں کے چالان پر چالان کاٹ رہے تھے‘ جس کے پاس ہیلمٹ نہ ہوتا‘ اس کا چالان کاٹ دیا جاتا۔ ایک صاحب اپنا موٹرسائیکل سٹینڈ پر کھڑا کرکے ہاتھ میں ہیلمٹ لئے دکان میں داخل ہورہے تھے کہ خان صاحب نے دھرلیا‘ ’’اوئے خوچا… تم ہیلمٹ لے کر کہاں جارہا ہے‘ تمہارا موٹر سائیکل کدھر ہے؟ ‘‘
پولیس اہلکار قانون شکنوں کیخلاف کارروائی ضرور کریں‘ لیکن کم از کم موٹرسائیکل یا رکشہ میں تو گاڑی یا جہاز کی سیٹ بیلٹ تلاش نہ کریں۔
٭…٭…٭…٭
تنہائی کا شکار ہوں‘ خاندان کے لوگ قتل نہ ہوتے تو طالب علم ہوتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلزپارٹی نے جمہوریت اور وطن کی خاطر بہت قربانیاں دی ہیں۔ بھٹو خاندان کو ہمیشہ بربریت کا سامنا رہا ہے۔ پہلے ایک آمر نے بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا ‘ پھر محترمہ کے ایک بھائی کو کابل اور دوسرے بھائی کو کراچی میں شہید کیا گیا حتیٰ کہ محترمہ خود اس بربریت کا نشانہ بن گئیں۔ جس خاندان کے بڑے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں تو پیچھے رہ جانے والوں کو تنہائی کا احساس توہونے لگتا ہے۔ دوسری جانب بلاول خوش قسمت ہیں کہ انہیں ابھی سیاسی تنہائی کا سامنا نہیں ہے‘ جب وہ جلسوں میں خطاب کررہے ہوتے ہیں تو وطن عزیز کے کئی ’’عالی دماغ‘‘ انکے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ بات ان کیلئے یقیناً فخر کا باعث ہے کہ چھوٹی عمر میں انہوں نے ملک کی بڑی سیاسی جماعت کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ انکی ڈوریاں کہیں اور سے ہلتی ہیں۔ اور اگر بلاول اس تنہائی کا ذکر کررہے ہیںجو ایک جیون ساتھی ہی دور کرسکتا ہے تو خاندان کے سیانوں کو سرجوڑ لینا چاہیے اور انکی اس تنہائی کا مطلب سمجھ لینا چاہیے۔ بچے کا مستقبل روشن ہے‘ اس لئے رشتوں کی کمی نہیں ہوگی ۔رہی انکے طالب علم ہونے کی بات ‘ تو وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں کیونکہ سیاست تو پارٹ ٹائم جاب ہے۔ ہمارے کئی سیاست دان فل ٹائم اپنا ذاتی کاروبار کرتے ہیں اورپارٹ ٹائم ملک چلاتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
پنجاب کے سکولوں میں یوم قائد کی تقریبات 23 دسمبر کو منعقد کرانے کا فیصلہ۔
ارے ایسی بھی کیا ایمرجنسی آن پڑی کہ قائد کے یوم ولادت میں ہی گڑبڑ کر ڈالی۔بابائے قوم کا جنم دن دو روز قبل منانے کی وجہ بیان نہیں کی گئی۔ ہماری یہ ایفی شینسیاں ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گی‘ ظاہر ہے اس طرح تو تاریخی ریکارڈ الٹ پلٹ کا شکار ہو جائیگا۔ پچیس سال بعد آنیوالی جنریشن کے ہاتھ اگر یہ خبر لگ گئی تو وہ تو یہی سمجھ بیٹھے گی کہ ہمارے قائد 25 کو نہیں‘ 23 دسمبر کو پیدا ہوئے تھے‘ پھر لاکھ جتن کرلئے جائیں لیکن وہ جنریشن 25 دسمبر پر اتفاق نہیں کریگی کیونکہ وہ اس وقت کی ٹیکنیکل جنریشن ہوگی۔ اس وقت دنیا میں جس طرح روز بروز ٹیکنالوجی میں ترقی ہورہی ہے‘ تو ظاہر ہے اس وقت کی جنریشن بھی ٹیکنیکل ہی ہوگی نا۔ کیا انتظامیہ بتانا پسند کریگی کہ قائد کی اصل تاریخ ولادت سے ہٹ کر وہ 23 دسمبر کو یہ تقریبات کیوں منعقد کرارہی ہے اور تقریری مقابلوں میں طالب علموں کو یہ کہنے پر مجبور کررہی ہے کہ ’’ویسے تو قائداعظم 25 دسمبر کو پیدا ہوئے تھے لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس سال وہ 23 دسمبر کو پیدا ہوئے ہیں۔‘‘
٭…٭…٭…٭
دو دن تک موبائل فون پر گیم کھیلنے والا نوجوان فالج کا شکار۔
ظاہر ہے دو دن مسلسل بیٹھ کر گیم کھیلنا ‘ نہ جسم میں حرکت‘ نہ گرمائش‘ نہ نیند‘ نہ سکون‘ جب جسم ساکت ہو جائے گا تو اس کا کوئی نہ کوئی کرشمہ تو سامنے آئیگا ہی۔ پھر دماغی ٹینشن الگ کہ کہیں گیم کھیلتے ہوئے کوئی غلطی نہ سرزد ہوجائے اور گیم اوور ہو جائے۔ لہٰذا موبائل فون پر مسلسل گیم کھیلنے والوں کیلئے یہ خبر ایک وارننگ بھی ہے۔
پہلے وقتوں میں عموماً سڑکوں اور گلی محلوں میں مجذوب نظر آیا کرتے تھے جو خودکلامی میں مصروف ہوا کرتے تھے۔ عوام الناس انہیں پاگل کہا کرتے تھے‘ جبکہ محلے کے شرارتی بچے انہیں پتھر مارا کرتے تھے۔ اب وہ مجذوب تو قصۂ پارینہ ہوگئے‘ کہیں اکا دکا نظر آتے ہیں لیکن اب انکا ڈیرہ مزاروں اور آستانوں تک محدود رہ گیا ہے جبکہ انکی جگہ اب عام شہری نے لے لی۔پیدل چلتے ہوئے‘موٹرسائیکل پر یا تنہاء گاڑی میں کئی لوگ خودکلامی کرتے نظر آتے ہیں‘ بعض تو قہقہہ بھی لگاتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ یہ آج کل کے ٹیکنیکل مجذوب ہیں اور اس وقت اپنے ایک قیمتی موبائل فون پر کسی کے ساتھ ’’چیٹ‘‘ کررہے ہوتے ہیں جو آج ایک سٹیٹس یا ترقی کی علامت بن چکا ہے۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم آج اس دور میں جی رہے ہیں جہاں ہر سو ترقی نظر آتی ہے۔ ترقی کے اس سفر نے ایک چھوٹی سی ڈیوائس میں دنیا کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے اور ہر باشعور کو ایک ایسا مجذوب بنا دیا ہے جو فون پر کسی کو اپنا پتہ بتاتے ہوئے ہاتھ سے پرزور اشارے بھی کررہا ہوتا ہے کہ ’’نہیں‘ نہیں‘ اس طرف سے نہیں‘ اس طرف سے آنا‘‘۔ کمال ہے انہیں نہ تو کوئی مجذوب کہتا ہے نہ پاگل گردانتا ہے اور نہ ہی محلے کا کوئی شریر بچہ انہیں پتھر مارتا ہے !!!