منگل ‘ 14؍ جمادی الثانی 1435ھ‘ 15 ؍ اپریل 2014ء
مسلمانوں کی ترقی کا خواہشمند ہوں، یہ معاشی طور پر کمزور اور تعلیم میں پیچھے ہیں : مودی !
یہ ہے ووٹ کی طاقت جس نے مودی جیسے ’’مسلم خور‘‘ امیدوار کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ وہ مسلم ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے بھارتی ریاست بہار کے گائوں ’’پاکستان‘‘ جا پہنچے اور ان کی ترقی کی خواہش کا اظہار کیا۔ پرانا محاورہ ہے ’’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘‘ ۔ شاید مودی جی بھول گئے کہ مسلمانوں کی پستی اور بدحالی کے ذمہ دار خود بھارتی انتہا پسند اور نام نہاد مسلم دوست حکمران ہیں۔ اگر کہیں مسلمان معاشی طور پر خوشحال ہو جاتے ہیں تو وہاں منظم طور پر ہندو مسلم فسادات کروا کے مسلمانوں کی فیکٹریاں، دکانیں اور گھر تک لوٹ مار کے بعد جلا دئیے جاتے ہیں، جانی نقصان تو علیحدہ ہوتا ہے اسکے بعد یہی خوشحال مسلمان بدحالی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اب جو ووٹ مانگنے کیلئے مودی جی کو یہ ’’مسلم محبت‘‘ کا دورہ پڑا ہے تو یہ ویسا ہی ہے جیسے ماسٹر کو کلاس روم میں آتا دیکھ کر طلبہ کے چہرے پر مسکنیت اور احترام آ جاتا ہے ورنہ دل میں وہ کیا سوچ رہے ہوتے ہیں اس کا علم تو ہم سب کو بخوبی ہے۔ ہمیں بھی یہی لگتا ہے کہ مودی کا یہ دورہ ’’پاکستان‘‘ بھی وہاں کے ووٹروں کو لالچ میں لانے کی کوشش ہے کیونکہ ان کے اس دورے میں ان کے ساتھ ان کے ہٹے کٹے مُشٹنڈے حامیوں کی فوج ظفر موج کو دیکھ کر ہی سہمے ہوئے مسلم ووٹروں نے گجرات کی مثال بننے کی بجائے مودی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
جب سے طلاق ہوئی میری انگریزی کمزور ہو گئی ہے : عمران خان !
تو خان صاحب اس میں پریشان ہونے والی کونسی بات ہے ویسے بھی آپ اچھے سکول اور کالج سے فارغ التحصیل ہیں اب بیوی سے علیحدگی کے بعد تو سمجھ لیں مکمل ’’فارغ البال‘‘ ہیں تو اب اپنے اور اپنے بچوں کی ٹیوٹر کی حیثیت سے مادام جمائمہ کی خدمات حاصل کرلیں۔ اس سے آپ ایک ٹکٹ میں دو مزے لے سکیں گے۔ آپ کے بچے مامتا کی شفقت کے علاوہ پذرانہ شفقت سے بھی مستفید ہونگے اور آپ میں انگریزی زبان کی چاشنی عود کر آئیگی۔آپ کے پاس کونسی کمی ہے روپیہ پیسہ ہے، پارٹی ہے، ہسپتال ہے، سیاست ہے، ورکر ہیں، ایک صوبے کی حکومت ہے جہاں اتنے جھنجٹ پال رکھے ‘ جمائمہ کا ٹیوٹر والا جھنجٹ بھی سہی۔اب ضروری تو نہیں آدمی شیخ رشید کی طرح ’’آوارہ منش‘‘ ہی کہلائے، یہ تو شکر ہے خان صاحب کے بچے اپنی امی جان سابقہ جمائما خان کے پاس لندن میں پرورش پا رہے ہیں انہیں تو اچھی خاصی انگریزی تہذیب و ثقافت اور زبان سے آگہی ہو گی اور جمائمہ کے ٹیوٹر بننے کی صورت میں خان صاحب کی اپنی یہ محرومی بھی ختم ہو جائیگی کہ …؎
اچھی لکنت زبان میں آئی
بات چھوٹی اثر بھی دوگنا ہو
سادہ لوح عوام تو رمز و کنایہ کی بات پر فدا ہوتے ہیں خوب سر دُھنتے ہیں اسی لئے تو مجذوبوں اور مستوں کی ہمارے معاشرے میں بہت قدر ہے پھر بہکی بہکی بات کرنے والا ’’بڑا پہنچا ہُوا‘‘ کہلاتا ہے لوگ ان کے پاس اچھے مستقبل کی نوید لینے جاتے ہیں بالکل ویسے جیسے عمران خان اور دوسرے سیاستدانوں کے پاس ووٹر نئی تبدیلی اور خوشحال مستقبل کا خواب لینے جاتے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
رونے سے حقوق نہیں ملتے، سندھی بھائیو ایک بار میرا ہاتھ تھام لو : الطاف !
ہم تو سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں اور انہیں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر متحد ہو کر رہنا چاہئے ورنہ ہر کوئی انہیں اپنے پیچھے لگا کر انکی راہ کھوٹی کرنے میں لگا رہے گا۔ البتہ الطاف بھائی کی اس بات پر حیرت ہے کہ ’’سندھیوں کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں رہا‘‘ خاکم بدہن کیا آصف زرداری اور بلاول زرداری نے سیاست چھوڑ دی ہے۔ ایاز پلیجو و دیگر رہنما گوشہ نشین ہو گئے ہیں کہ سندھی عوام کو ایک نئے قائد کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور وہ … ؎
تیرے بغیر کسی چیز کی کمی تو نہیں
تیرے بغیر طبیعت اداس رہتی ہے
کے مصداق اپنی اداسی کا حل تلاش کرنے لگے ہیں۔ بہرحال واقعہ جو بھی ہو اب الطاف بھائی نے وطن واپس آنے کا ایک مرتبہ پھر اعلان کر دیا ہے جو اسی سلسلے کی کڑی ثابت ہو سکتا ہے کہ سندھی عوام ان کی قیادت اور جھنڈے تلے جمع ہو جائیں اور اپنے حقوق حاصل کریں۔ یہ اچھی بات ہے۔ امید ہے اب کوئی ان کی آمد میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔ ویسے اس وقت بھی تو سندھ پر سندھی ہی حکمران ہیں اور ماضی میں بھی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم مل جُل کر اتحاد و اتفاق حکومت کرتے رہے اور اس سارے عرصہ میں سندھ کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے اور اس پر الطاف بھائی کا رونا چہ معنی دارد کیونکہ یہ حالت تو ان نئے اور پرانے بیٹوں نے خود اپنے گھر کی ہے۔ نہ در سلامت ہے نہ کوئی دیوار ۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
افغانستان میں ووٹوں کی گنتی جاری، عبداللہ عبداللہ آگے، اشرف غنی دوسرے نمبر پر ہیں !
وہ حضرت غالب نے کیا خوب کہا تھا ’’یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا‘‘ بالکل ویسے ہی یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ افغانستان کے الیکشن میں کامیاب کوئی پاکستان کا حامی امیدوار ہوتا۔ ’’لنکا سے جو نکلا سو باون گز کا‘‘ کی مثال افغانستان پر ہی فٹ آتی ہے، وہاں جو بھی حکمران آیا وہ پہلے سے زیادہ اپنے کو پاکستان مخالف منوانے پر مُصر رہا اور ہم پاکستانی اس کے باوجود ان کیلئے محبت اور چاہت کے خواب دیکھتے رہے ہیں اور جواب میں بقول ساغر صدیقی …؎
پھول چاہے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر
ہم نے آغوشِ محبت میں سُلائے پتھر
والی حالت ہماری رہی اور ہمیں سخت مخالفت کا سامنا ہی رہا۔ عبداللہ عبداللہ کے نام سے کوئی دھوکا نہ کھائے کیونکہ ہم اسی کی زبان سے پاکستان کے بارے میں بہت سے خوش گفتاریاں سماعت کر چکے ہیں اس لئے اسے ’’عبدل بھارت‘‘ ہی سمجھتے ہیں۔ جو حقیقت میں بھارت کا بے بدل ترجمان ہی تو ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭