اتوار ‘ 26 ؍ ربیع الثانی 1439 ھ‘ 14 ؍ جنوری 2018ء
میں چیف جسٹس ہوتا تو زینب کا قاتل پکڑا جا چکا ہوتا: افتخار چودھری
سابق چیف جسٹس کے اس دعویٰ پر اب بھی کچھ لوگ یقین کرتے ہوں گے مگر حقیقت وہی ہے جو غالب کہہ چکے ہیں … ’’کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‘‘
آپ اگر اتنے ہی مہان تھے تو سب سے پہلے آپ نے ارسلان نامی نوجوان کے کیس میں یہ پھرتی کیوں نہ دکھائی۔ اس سے خود کو الگ تو کر لیا مگر اسے منطقی انجام تک پہنچانے میں مدد کیوں نہ کی۔ اب ’میں ہوتا تو یوں ہوتا نہ ہوتا تو یوں ہوتا‘ کی گردن دہرانے سے کیا حقیقت بدل جائیگی۔ کسی بھی کام کی اصلاح کی بنیاد سب سے پہلے اپنی ذات سے شروع کی جاتی ہے پھر گھر والے اس میں شامل ہوں۔ رشتہ دار اور گلی محلے والے بعد میں اس اصلاحی دائرے کا حصہ بنتے ہیں۔ اب آپکے ہاتھ کس نے روکے ہیں اپنا اثر و رسوخ، علم و مہارت استعمال میں لا کر مجرم یا مجرموں کو گرفتار کرا دیں۔ کیا اس کام کیلئے بھی عہدہ ہونا ضروری ہے؟ یہ تو وہی سیاسی بیان ہے کہ مجھے حکومت ملے تو میں یہ کر دوں گا وہ کر دوں گا۔ بہت سے کام عہدے اور اختیارات کے بغیر بھی کئے جا سکتے ہیں، صرف عمل کی نیت ہو ورنہ کیا کرسی پر بیٹھنے سے آپکے ہاتھ الہ دین کا جادوئی چراغ آ جاتا ہے کہ آپ جو چاہتے ہیں اس چراغ کا جن منٹوں سیکنڈوں میں آپکے آپکے حکم پر کر کے دکھاتا ہے۔ جو کام آپ کر سکتے ہیں کر کے دکھائیں، مجرم کی گرفتاری میں مدد بھی آپ کی نیک نامی اور انصاف پسندی کو چار چاند لگا دیگی۔ آگے بڑھیں اور اس نیک کام میں مدد کریں۔
٭…٭…٭…٭
کتے مارنے کی بجائے فلپائن ایکسپورٹ کئے جائیں: سپیکر سندھ اسمبلی
’’لنکا سے جو نکلا سو باون گز کا‘‘ والا محاورہ تو سب نے سنا ہو گا، آج کل سندھ اسمبلی میں بھی لگتا ہے سب ایسے ہی ہیں۔ وزیراعلیٰ سے لیکر وزراء تک سب طنز و مزاح کے ایسے ماہر ہیں کہ ضمیر جعفری اور مشتاق یوسفی کی نثر اور شاعری کی چلتی پھرتی تصویریں نظر آتی ہیں۔ آغا سراج سندھ اسمبلی کے سپیکر ہیں، تن و نوش اور شکل و صورت سے خاصے سخت گیر انسان معلوم ہوتے ہیں مگر جب ترنگ میں آ کر بولتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ذوق سلیم ہی نہیں حس مزاح بھی رکھتے ہیں۔ کراچی میں کتوں کی بہتات واقعی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ویسے بھی جتنا بڑا شہر ہوتا ہے وہاں یہ آس پاس کے علاقوں سے بن بلائے مہمان بن کر نازل ہوتے ہیںجسکی وجہ سے اب لاکھ میونسپل کمیٹی والے کتے مار مہم چلائے انکی تعداد میں کمی نہیں ہوتی، 10 مارو تو 20 اور آ جاتے ہیں۔ ہمارے بعض پڑوسی اور کچھ ایشیائی ممالک میں کتوں کا گوشت لذتِ کام و دہن کیلئے نہایت رغبت سے استعمال ہوتا ہے۔ روسٹ سے لیکر انکے تکے کباب تک عام ملتے ہیں۔ اب کراچی ہی نہیں پورے پاکستان میں ’’سگان آوارہ‘‘ کی بڑھتی ہوئی تعداد قابل تشویش ہے۔ انکے کاٹے کی تو ویکسین بھی ہر جگہ باآسانی دستیاب نہیں۔ کتے مارنے کا فنڈ بلدیہ والے کھا جاتے ہیں تو اب آغا سراج درانی کی تجویز پر اگر عمل ہو جائے تو کیا برائی ہے۔ اس بہانے ملک بھر سے کتوں کا خود بخود صفایا بھی ہو جائیگا اور زرمبادلہ بھی حاصل ہو گا۔ جو ’’ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا‘‘ والی بات ہے۔
٭…٭…٭…٭
’’فیل کیوں کیا؟‘‘ گوجرانوالہ بورڈ کی عمارت کو بم سے اڑانے کی دھمکی دینے والا گرفتار
یہ عجب دور آ گیا، اب کیا کسی غم کے مارے کو رونے اور تڑپنے کی اجازت بھی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ تو وہی
’’گھٹ کے مر جائوں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے‘‘
والی بات ہو گی۔ ایک فیل طالب علم نے صرف بورڈ کی عمارت کو اڑانے کی دھمکی دی ہے ورنہ اسکا تو اس وقت جی چاہتا ہو گا پوری دنیا کو اڑا دے کیونکہ اسکے فیل ہونے کی اطلاع ملتے ہی اسکی دنیا تو اڑ گئی بنا کسی دھماکے کے…! پہلے ماں باپ اسے روئی کی طرح دھنک کر رکھیں گے پھر دوست احباب اس دھنکی ہوئی روئی کی رضائی بنانے کے عمل میں زبان کی نوک سے سلائی کرینگے تو اسکا مزہ وہی اٹھا سکتا ہے جو کبھی فیل ہوا ہو۔ ایک محنتی طالب علم تو اس اذیت کو برداشت ہی نہیں کر پاتا۔ ہاں اگر کوئی غبی نالائق طالب علم ہے جو پرچوں میں سوالات کے جوابات کی جگہ مقدس ناموں کے واسطے دیکر پاس ہونے کیلئے نمبر مانگتا ہو یا فلمی گانے لکھ کر آیا ہو اس کو اپنے فیل ہونے پر اتنا چراغ پا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ تو جیسا کرو گے ویسا بھرو گے والی بات ہے۔ سو اب بھی ویسا ہی ہوا ہے۔ بس حد یہ ہو گئی ہے کہ بورڈ والوں نے اس دھمکی کو سیریس لے لیا اور اب پولیس نے اس طالب علم کو گرفتار کر لیا ہے۔ خدا خیر کرے!
بھلا ہذیان میں کچھ کہے لکھے کو کون سیریس لیتا ہے۔ بورڈ اور پولیس والے معاملے کو ٹھنڈے پیٹوں لیں اور والدین سے مل بیٹھ کر معاملہ ختم کریں۔ کہیں یہ طالب علم مقدمہ بازی کے عمل میں سچ مچ ہی ایسے لوگوں کے ہتھے نہ چڑھ جائے جو دھماکہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ اپنے حلقے سے 544 ووٹ لے کر منتخب ہوئے تھے۔
ق لیگ کے یہ امیدوار آوران کے علاقے سے جیتے ہیں۔ انکے حلقے میں صرف ایک اعشاریہ 58 فیصد ووٹ پڑے تھے یعنی صرف 544 جو عام طور پر بلدیاتی الیکشن میں کافی سمجھے جاتے ہیں۔ اب یہ تو ہما کی مرضی ہے جس کے سر پر جا کر بیٹھ جائے وہ بادشاہ بنتا ہے۔ نئے وزیراعلیٰ کے سر بھی ہما بیٹھا تو نہیں شاید اڑتے اڑتے گزرا ہو گا جبھی تو انہیں جو مدت حکمرانی ملی وہ چند ماہ کی ہے مگر چلیں نظام سقہ کی طرح انکے نام کا سکہ چلے نہ چلے انکی حکومت تو بلوچستان میں چلے گی کیونکہ ان کو ان کی اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کے باغی ممبران کے علاوہ اپوزیشن کی بھی وافر مقدار میں حمایت حاصل ہے۔ خاص طور پر سابق وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی جن کے سر پر معلوم نہیں آنے والے دور میں 2018 کے بعد ہما بیٹھتا ہے یا نہیں مگر بہت سے نادیدہ ہاتھوں کا سایہ ضرور ہے۔ اگر عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ ہیں تو ان میں سرفراز بگٹی صاحب کا بہت بڑا عمل دخل ہے جنہوں نے مسلم لیگ (ن) کو بلوچستان میں اختیارات اور طاقت کے نئے کھیل سے متعارف کرا دیا جو شاید آگے چل کر بھی کھیلا جائیگا۔ اب فی الحال نئے وزیراعلیٰ مبارک سلامت کا شور سمیٹیں پھر دیکھیں گے کہ ان کے حمایتی کیا کیا گل کھلاتے ہیں۔ فی الحال تو بلوچستان کے نوجوانوں کی سوشل میڈیا پر دستیاب ایک تنظیم نے نئے وزیراعلیٰ سے کہا کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق فوری طور پر 35 ہزار سرکاری خالی آسامیوںپر بیروزگار نوجوانوں کو بھرتی کریں۔ یہ تو ابتدا ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا… ابھی تو حمایتی ارکان اسمبلی نے اپنے اپنے مطالبات کا دفتر کھولا ہی نہیں ہے نہ ہی سابق وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کچھ طلب کیا ہے جن کے دم سے یہ رونق لگی ہے۔
٭…٭…٭…٭