پی پی پی کی کمان اور فیصلوں کا اختیار زرداری کو سونپنے کا فیصلہ
یوں سمجھیے پارٹی کی قیادت سے بلاول زرداری کی چھٹی کی گھنٹی بج گئی۔ مخالفین بلاول کو اب چلا ہوا کارتوس کہہ سکیں گے والد گرامی نے انہیں چلا کر دیکھ لیا مگر وہ ٹھس نکلے اور بھٹو بننے کے چکر میں زرداری بھی نہ رہے۔ اب آصف زرداری نے دوبارہ پارٹی کی قیادت سنبھال کر انہیں کھڈے لائن لگا کر گویا او ایس ڈی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری کے ساتھ ملاقاتوں کے نتیجے میں کئی روٹھے ہوئے مشکل حالات میں بھاگے سیاستدان واپس پیپلز پارٹی کا رخ کر رہے ہیں۔ نبیل گبول آ چکے عرفان مروت بھی آ جاتے مگر بے نظیر کی بیٹیوں نے کلمہ حق کہہ کر اس کی راہ روک لی۔ اب بلاول کو فارغ اوقات میں صرف پیپلز پارٹی کے جلسوں کی رونق بڑھانے کے لئے عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا تاکہ ’’بی بی دے نعرے وجن گے‘‘ کی تال پر وہ عوام کا لہو گرما سکیں۔ حالانکہ وہ ’’بی بی ہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں‘‘ کے نعرے لگا کر زرداری صاحب کے لئے بھی پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ مگر فریال تالپور کی موجودگی میں اندرون خانہ اور زرداری صاحب کی موجودگی میں بیرون خانہ پی پی پی پی پر اب پھر سابق صدر کی گرفت قائم ہو گئی ہے۔ اسلئے فی الحال بلاول‘ آصفہ اور بختاور کو منظرعام سے ہٹایا جا رہا ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭
پاکستان‘ افغانستان کی خودمختاری تسلیم کر لے تو اچھے نتائج برآمد ہوں گے: محمود اچکزئی
اچکزئی صاحب کی اس دوپہر کی اذان پر اب بھلا کون کان دھرے۔ محمود اچکزئی کوئی نوآموز سیاستدان نہیں بلکہ ایک تجربہ کار قوم پرست رہنما ہیں۔ جو آج کل قومی اسمبلی میں بھی رونق لگائے رکھتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے رہتے اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے سیاست کرتے وہ پاکستان میں ہیں ان کی ساری عزت دولت شہرت اسی وطن عزیز کے دم سے ہے مگر ان کی ساری ہمدردیاں سرحد پار افغانستان کے ساتھ ہیں۔ ’’ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے‘‘ کوئی جا کر ان سے پوچھے جناب 70 برس میں کون سا ایسا موقع آیا جب پاکستان نے افغانستان کی خودمختاری پامال کی۔ اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ سچ اور حقیقت تو یہ ہے ہمیشہ افغانستان نے پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ اس کی اقوام متحدہ میں شمولیت کے خلاف ووٹ دیا اس کی سرحدوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے ڈیورنڈ لائن کے فتنے کو ہوا دی۔ اس کی خودمختاری پر حملہ کرتے ہوئے پختونستان کا شوشا چھوڑا۔ اس کے باوجود روسی یلغار ہوئی تو پاکستان نے ہی افغانستان کی خودمختاری کی خاطر روس سے ٹکر لی اپنی سلامتی و خودمختاری داؤ پر لگا دی۔ اسلئے اچکزئی صاحب پاکستان کی بجائے اگر اپنی توپوں کا رخ افغانستان کی طرف کر لیں تو زیادہ بہتر ہے شاید اس طرح وہ پاکستان کی خودمختاری تسلیم کر لیں اور شرانگیزیوں سے باز آ جائیں…
٭…٭…٭…٭…٭
فضل الرحمن کے دیرینہ ساتھی عصمت اللہ اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہو کر تحریک انصاف میں شامل۔
بلوچستان کے بعد اب خیبر پی کے میں بھی مولانا فضل الرحمن کی تسبیح کے دانے بکھرنے لگے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں چھابے کے نیچے سے چوزے نکل کر اِدھر اُدھر ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں مولانا شیرانی نے اپنا حجرہ علیحدہ بنا رکھا ہے۔ اب خیبر پی کے میں مولانا عصمت اللہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کی بجائے تحریک انصاف کی مسجد میں جا گھسے ہیں۔ دیکھتے ہیں یہاں وہ موذن بنتے ہیں یا صرف نکاح خواں بن کر تحریک انصاف میں آنے والوں سے ایجاب و قبول کرواتے ہیں۔ کیوں کہ اب لگتا ہے الیکشن سے قبل دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی کئی پرندے پرواز کر کے تحریک انصاف کی شاخوں پر بیٹھنے والے ہیں۔
بس ایک بات بڑی حیرت انگیز مولانا نے جو فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے تحریک انصاف یا خیبر پی کے حکومت کی اسلام دوست پالیسیوں کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ عمران خان کے لئے یہ سرٹیفکیٹ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے۔ امید ہے جے یو آئی کے باقی اسلام دوست رہنما بھی عصمت اللہ کے اس بیان کے بعد واصل بحق تحریک انصاف ہوں گے…
٭…٭…٭…٭…٭
بیوی کا انتقال ہو گیا۔ جدہ جانے والی پرواز میں مسافر کے شور پر طیارہ واپس اتار لیا گیا۔
طیارے کے کپتان نے ازراہ ہمدردی جس شخص کی فریاد پر جدہ جانے والا طیارہ واپس لاہور ائرپورٹ پر اتارا۔ تحقیقات کے بعد پولیس نے اسے حوالات پہنچا دیا موصوف عاشق مزاج شوہر نکلا جس کی بیوی زندہ ہے اور وہ اس سے دور نہیں رہ سکتا۔ اسلئے اس نے یہ ڈرامہ رچایا۔ اب اگر کوئی اس میاں مجنوں سے پوچھے کہ اس وقت اس کا منہ کیوں بند تھا جب گھر والے اسے ملازمتوں سعودی عرب کیلئے الوداع کہہ رہے تھے۔ کیا اس وقت اسے لیلیٰ کی محبت نہیں ستا رہی تھی۔ اب جہاز نے جونہی اڑان بھری اس عشق کے مارے شوہر کے دل میں بیگم کی محبت امڈ آئی اور اس نے جہاز میں شور مچا دیا کہ اس کی بیوی انتقال کر گئی ہے۔ بے چارے پائلٹ نے اس پر یقین کر لیا اور جہاز واپس موڑ لیا۔ ائرپورٹ پر اس کے ڈرامے کی کھلی تو اسے حوالات پہنچا دیا گیا جہاں سے نکلنے کے بعد امید ہے اس کی بیوی اسے کافی روز ٹکور کرتی رہے گی اور گھر والے لعن طعن کر کے اسے دوبارہ باندھ کر سعودیہ بھیجنے کی کوشش کریں گے تاکہ جو کرایہ برباد ہو اسے بمعہ سود وصول کر سکیں۔
٭…٭…٭…٭…٭