جمعۃ المبارک ‘ 14 ؍ ربیع الثانی 1438 ھ‘ 13 ؍ جنوری 2017ء
حکومت کا صنعتی پیکج انتخابی دھاندلی کا اعلان ہے، خورشید شاہ
چلئیے مان لیتے ہیں حکومت کا یہ اعلان انتخابی دھاندلی کا آغاز ہے۔ آپ کو کس نے کہا ہے پیچھے رہنے کیلئے۔ آپ بھی صوبہ سندھ میں ایسے ہی خوبصورت پیکیجز کا آغاز کریں۔
قدم قدم پہ رعایتوں کا ایسا جال بچھا دیں کہ عوام کسی بھی موڑ پر اس سے بچ کر نہ نکل سکیں۔ مرکزی حکومت نے اگر صنعتی پیکج کا اعلان کیا ہے تو آپ بھی اپنی سندھ حکومت سے کہیں کہ وہ سارے صوبے میں صنعتکاروں، کسانوں، مزدوروں، طالب علموں، بیروزگاروں، خواتین اور اقلیتوں کیلئے ایسے پرکشش اور بھرپور پیکجوں کی بھرمار کر دیں۔ پھر دیکھیں مسلم لیگ ن کی قیادت کس طرح بلاول اور آصف زرداری سے شکایت کرتی ہے کہ یہ تو کھلم کھلا اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ اس طرح سندھ حکومت ووٹروں کے دل موہ لے گی۔ ایسی شاندار پرکشش مراعاتوں کے بعد ووٹ پر بھی انہی کا استحقاق دیوار پر لکھا نظر آئیگا۔
جب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی طرف سے عوام کیلئے پرکشش اور شاندار پیکج سامنے آئیں گے۔ اس کے بعد تحریک انصاف والے بھی خیبر پی کے میں اگر ایسا ہی ماحول پیدا کر دیں تو پورے ملک میں اس کی بھی بلے بلے ہو جائے گی۔ مگر افسوس ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ صرف ایک خواب ہے۔ اس لئے جو اچھا کام تھوڑا بہت ہی سہی ہو رہا ہے ہونے دیں۔ گھبرائیں نہیں۔ خود بھی کچھ اچھا کرنے کی کوشش کریں…
…٭…٭…٭…
پتنگ بازی پر 7 سالہ بچے کے والد کو ہزار روپے جرمانہ
عدالت نے تو اپنا کام کر دیا۔ اب گھر جا کر ابا حضور نے بچے کو جو سزا دی ہو گی اس کا ذکر کون کرے۔ اگرچہ والدہ نے بروقت درمیان میں آ کر بیچ بچائو کرایا ہو گا۔ مگر اس دوران بھی چند ایک کرارے ہاتھ ضرور بچے کو جڑے جا چکے ہوں گے۔ اب 7 سالہ بچے کو کیا معلوم کہ پتنگ بازی پر پابندی ہے۔ وہ بے چارا تو پیسے لے کر چیز لینے گیا ہو گا مگر کیا کرے کہ اس کم بخت دکان پر ٹنگی رنگ برنگی پتنگیں دیکھ کر اس کا جی للچایا ہو اور اس نے ٹافیوں کی جگہ پتنگ خرید لی ہو اور پھر اسے لے کر چھت پر اڑانے لگا ہو۔
اب قصور تو بچے سے زیادہ اس دکاندار کا ہے جو پابندی کے باوجود پتنگیںاور ڈور فروخت کر رہا ہے۔ اس پورے قصے میں اس کا تو ذکر نہیں کہ اس پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا گیا کیا وہ بھی کوئی با اثر دکاندار تھا کہ اسے چھوڑ دیا اگر ایسا ہے تو بچے کے باپ کو جرمانہ کیوں۔ صرف اس لئے کہ وہ بچے کا باپ ہے یا اس نے بچے کو پیسے دیئے تھے یا پھر بچے کو پتنگ بازی کرنے سے روکا کیوں نہیں۔ اگر باپ مجرم ہے تو دکاندار اس سے بڑا مجرم ہے جو پتنگیں فروخت کر رہا ہے۔ پابندی کے قانون کی دھجیاں بکھیر رہا ہے…
…٭…٭…٭…
اصلاحاتی پروگرام کے بعد سرکاری اور نجی سکولوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا، مریم نواز
خدا کرے ایسا ہی ہو۔ اس طرح لاکھوں والدین اور سرکاری سکولوں کے طلبہ مریم نواز کیلئے دعاگو رہیں گے۔ نجی سکولوں کی حالت بھی ماسوائے چند بڑے بڑے سکولوں کے بس گزارے لائق ہے۔ نہ سہولتیں نہ گرائونڈ نہ لیبارٹریز مگر اس کے باوجود وہ لیب سپورٹس اور دیگر سہولتوں کی مد میں نجانے کون کون سے واجبات اور فنڈز وصول کرتے ہیں۔ ان کی گوشمالی بھی ضروری ہے۔ رہے سرکاری سکول تو وہاں اگر ٹوٹی پھوٹی عمارت ہے تو طلبہ نہیں۔ طلبہ ہیں تو ٹیچرز نہیں۔
ان حالات میں انہیں اگر حکومت کی سرپرستی مل جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ سرکاری سکول پہلے کی طرح شاندار رزلٹ نہ دیں۔ یہ نجی سکولز صرف شوشا پر زیادہ توجہ دے کر والدین کو بیوقوف بناتے ہیں۔ اکثر کا ٹیچنگ سٹاف نان کوالیفائیڈ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سرکاری سکولوں میں بہرحال کوالیفائیڈ ٹیچرز بھرتی ہوتے ہیں چاہے آتا ان کو بھی کچھ نہ ہو۔ اب مریم نواز نے سیاست کے مارے سرکاری سکولوں کی حالت بدلنے کی ٹھان ہی لی ہے تو پوری قوم کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ کم از کم اس طرح ان سکولوں کی حالت تو بدل جائے گی۔
…٭…٭…٭…
بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ جو تا لگنے سے زخمی
ہمیں تو یہ جوتا باری خالصتانیوں کی شرارت لگتی ہے۔ اندرا گاندھی نے دربار صاحب پر حملے کے بعد سمجھ لیا تھا کہ خالصتان کی تحریک ختم ہو گئی ہے مگر اس کے قتل کے بعد سکھوں کے قتل عام نے سکھوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ عارضی خاموشی کے بعد اب پھر خالصتان کے نعرے بھارتی پنجاب ہی نہیں دنیا بھر میں گونج رہے ہیں۔ بھنڈرانوالہ کی روح آج پھر اپنے ہزاروں ساتھیوں کی روح کے ساتھ گولڈن ٹمپل میں نظر آنے لگی ہے۔ اس کا ثبوت بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل پر پڑنے والا یہ جوتا ہے۔
پرکاش سنگھ بادل لامبی میں انتخابی مہم پر آئے تھے کہ پھولوں کے ساتھ ساتھ ایک عدد جوتا بھی پھول بن کر ان کے چہرے کو چوم گیا جس سے ان کی آنکھ کے پاس زخم بھی آیا ہے۔ اب پنجاب حکومت کی طرف سے خفت مٹانے کیلئے اعلان کیا گیا ہے کہ جوتا بردار شخص حکومت کی طرف سے عوامی بیت الخلاء نہ بنانے پر غصے میں تھا۔ اگر ایسا ہے تو اسے چاہیے تھا کہ وہ غلاظت اٹھا کر وزیر اعلیٰ کے پوسٹروں پر ملتا۔ ریلی کے راستے میں گند بکھیر دیتا۔ یہ جوتے کا بیت الخلا سے کیا واسطہ۔