جمعۃ المبارک‘ 24 ؍ ربیع الثانی 1439 ھ‘ 12 ؍ جنوری 2018ء
تنخواہ نہ ملنے پر سپریم کورٹ کے عملہ صفائی نے ہڑتال کر دی، صورتحال خراب
یہ تو بڑی زیادتی ہے، دوسروں کو انصاف فراہم کرنے والے ادارے کے اپنے غریب صفائی ورکرز تنخواہوں سے محروم ہیں، اطلاع کے مطابق وہاں یہ کام ٹھیکیدار کے سپرد ہے جو تنخواہیں نہیں دے رہا۔ جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے اطمینان سے ساری ذمہ داری پی ڈبلیو ڈی والوں پر ڈال دی کہ وہ بلز جاری کریں گے تو تنخواہ دوں گا۔ اب کیا ان بے چارے مظلوم سینٹری ورکرز کو تنخواہ دلوانے کیلئے بھی سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا پڑے گا۔ سب جانتے ہیں کہ سینٹری ورکرز کا کام کس قدر حساس نوعیت کا ہوتا ہے۔ ایک آدھ دن بھی یہ کام چھوڑ دیں تو حالت بگڑ جاتی ہے۔ لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ سو اب سپریم کورٹ بلڈنگ کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہو چکی ہے جہاں ججز حضرات کے علاوہ وکلائ، دفتری عملہ اور عام سائلین کا رش لگا رہتا ہے۔ اب وہ حوائج ضروریہ کے لئے سپریم کورٹ کے واش رومز بھی استعمال کرتے ہوں گے۔ جہاں نہ صفائی ہو نہ دھلائی وہاں کی حالت بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ سپریم کورٹ میں داخل ہونے والوں کو خود بخود یہ ظالمانہ گند گی اور تعفن اپنی موجودگی کا احساس بھرپور دلاتی ہے جس سے بچنا کسی کیلئے ممکن نہیں سو اس مسئلہ کے کرتا دھرتا خود ہی خوف خدا کریں اور سینٹری ورکروں کی تنخواہ فوری ادا کریں ورنہ جلد ہی سپریم کورٹ کے قریب سے گزرنے والے بھی ناک پر رومال رکھ کر احتجاج کرتے نظر آنے لگیں!
٭…٭…٭…٭
کیلیفورنیا میں بارش کا پانی سونے کے بھائو بکنے لگا۔
چلیں جی اس سے یہ تو معلوم ہوا کہ دنیا میں عقل اور ہمت ہو تو انسان بھوکا نہیں مر سکتا، روزی کما سکتا ہے۔ روزی کمانے کے نت نئے ہزاروں طریقے ہیں۔ پوری دنیا خاص طور پر یورپ اور امریکہ والے تو یہ طریقے ڈھونڈتے بھی ہیں اور دریافت بھی کرتے ہیں اور ان پر عمل بھی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا، یہاں بیروزگاری سے تنگ نوجوان روزگار کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے کی بجائے چوری، ڈکیتی اور جرائم کی نت نئی راہوں پر چل پڑتا ہے۔ شاید اسکی وجہ شارٹ سرکٹ کی تلاش اور راتوں رات امیر بننے کی ہوس ہوتی ہے۔ اگر ہمارے نوجوان یورپ والوں سے صرف فیشن اور برگر کے علاوہ کام کاج کا ہنر بھی سیکھیں تو روزگار کما سکتے ہیں۔ اب کیلیفورنیا کا تو ہمیں پتہ نہیں البتہ پاکستان میں بارش جو عطیہ خداوندی ہے بہت ہوتی ہے، پنجاب خیبر پی کے میں تو یہ رحمت کافی برستی ہے بلکہ دل کھول کر برستی ہے۔ سندھ میں بھی اکثر ہوتی ہے۔ بلوچستان میں اسکا نزول کم کم ہی ہوتا ہے مگر چلیں وہاں کی آبادی بھی کم ہے۔ اب اگر ہمارے وہ نوجوان جو علم حاصل کرنے کے بعد فارغ ہیں یا ناخواندہ نوجوان اب اس طریقہ روزگار پر ہی غور کریں تو پاکستان میں بھی بارش کے قدرتی پانی کی خرید و فروخت کا منافع بخش کاروبار شروع کر سکتے ہیں۔ جب یہاں عام نلکوں کا پانی منرل واٹر کے نام پر فروخت کرنیوالے فراڈی لاکھوں کی کمائی کر رہے ہیں تو بارش کا قدرتی پانی فروخت کرنے والے کیوں گھاٹے میں رہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ وہ پانی واقعی بارش کا ہی ہو، سرکاری نلکے کا نہ ہو…!
ملازمتوں میں کمی بہت بڑا چیلنج ہے، حکومت آبادی بڑھنے سے روکنے کے اقدامات کرے: عدالت عظمیٰ
حکومت تو بھٹو دور سے اس کوشش میں لگی ہوئی ہے مگر کیا مجال ہے کہ کوئی بھی پاکستانی اپنی حکومت کی ’’دو بچے خوشحال گھرانہ‘‘ والی صدا پر کان دھرتا ہو۔ فیملی پلاننگ سے لے کر خاندانی منصوبہ بندی اور اب بہبود آبادی کے نام پر طرح طرح کی رنگ برنگی سکیمیں، پروگرام وجود میں آئے مگر یہ سب آبادی کے بڑھتے ہوئے سیلاب پر قابو پانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
چین جیسے دیوقامت ملک نے اس سیلاب پر قابو پا لیا، بنگلہ دیش جو ہمارے ہی وجود سے علیحدہ ہوا ہے وہاں بھی یہ عفریت قابو میں آ چکا ہے مگر نہیں آ رہا تو یہ جن ہمارے قابو میں نہیں آ رہا۔ مفت ادویات سے لے کر مفت مشوروں تک کی بھرپور کوشش بھی ’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ کے مقولے کو کامیاب نہ بنا سکیں تو ایسے حالات میں ہزاروں نوجوان ہر سال ڈگریاں لے کر سڑکیں نہیں ناپیں گے تو اور کیا کریں گے۔ نجی ادارے زیادہ ملازمتیں فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ سرکاری اداروں میں جگہ نہیں تو یہ لاکھوں بیروزگار کہاں جائیں گے۔
اس چیلنج سے نمٹنے کی ہر کوشش ناکام ہو رہی ہے تو اسکی سب سے بڑی وجہ یہی ہمارے ذمہ عالمی قرضوں پر واجب الادا شرح سود سے بھی تیزی کے ساتھ بڑھنے والی ہماری آبادی ہے۔ جب تک اس پر قابو نہیں پایا جائے گا بیروزگاری کا جن بوتل میں واپس نہیں جائے گا۔ اسلئے قوم کو ہر سال نئے مہمان کی آمد کی تیاریوں سے پرہیز کرنے کی پالیسی اپنانی ہو گی۔
٭…٭…٭…٭
خیبر پی کے میں دینی مدارس کو محکمہ تعلیم کے زیراہتمام کرنے کا فیصلہ
یہ خیبر پی کے گورنمنٹ کا ایک اہم اور صائب فیصلہ ہو گا اگر اس پر عمل ہو سکا تو۔ کیا ہماری دینی قیادت اس اصلاحی فیصلے کو آسانی سے قبول کر لے گی یہ سوال البتہ ٹیڑھا ہے۔ ۔ اب چونکہ کچھ دنوں قبل ہی وزیراعلیٰ خیبر پی کے نے مساجد کے علماء کیلئے ماہانہ 10 ہزار روپے سرکاری تنخواہ مقرر کر دی ہے، اس کی وجہ سے مساجد میں اس کے بارے میں زیادہ شور شرابا نہ ہوا مگر مدارس کے منتظمین بآسانی یہ فیصلہ قبول کرتے نظر نہیں آئیں گے کیونکہ…
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
اس فیصلے سے براہ راست ان کے ذاتی مفادات اور مسلکی سرگرمیوں پر زد پڑ سکتی ہے۔ محکمہ تعلیم کے زیراثر ہونے کے بعد ان مدارس میں حکومت کا منظور شدہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم اپنانا ہو گا۔
اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ مسلکی اختلافات کی آگ پر کچھ اوس پڑے گی، یکساں نصاب رائج ہوا تو بین المسالکی ہم آہنگی بھی بڑھے گی۔ اگر یہی کام چاروں صوبائی حکومتوں نے بھی سرانجام دیا تو اسکا بہت فائدہ ہو گا۔ دینی مدارس کے طلبہ کا بھی بھلا ہو گا۔ وہ بھی جدید رجحانات سے روشناس ہوں گے جو آگے چل کر ان کے لئے فائدہ مند ثابت ہو گا۔ اور سب سے بڑھ کر اختلاف برائے رحمت ہو گا کسی زحمت کا باعث بننے کا کاروبار ختم ہو گا۔ مگر کیا ایسا ہونا ممکن ہے۔
٭…٭…٭…٭