منگل‘23 ؍ ربیع الاوّل 1439ھ‘12 ؍ دسمبر2017ء
شیخوپورہ ہرن مینار کی بارہ دری میں عمران خان کی ہرن اور بٹیر کے گوشت سے تواضح
اطلاع تو یہ تھی کہ یہ عشائیہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا ہے ۔مگر اندرون خانہ میزبانوں نے عوام کو ماموں بنا کر اطمینان سے خان صاحب کو ہرن مینار میں عین تالاب کے وسط میں بنی بارہ دری میں شاہی قسم کی دعوت دی جس میں ہرن اور بٹیر کا گوشت بھی شامل تھا۔ یہ ہرن مینار ایک عظیم مغل بادشاہ جہانگیر نے اپنے پیارے ہرن کی موت پر اسکی یہاں قبر بنا کر تعمیر کیا۔ مغل انداز میں تعمیر شدہ ہرن مینار کے ارد گرد ایک وسیع تالاب ہے جو پانی سے لبالب بھرا رہتا ہے۔ اور ایک پل سے یہ ہرن مینار تک جاتا ہے اسی پل کے درمیان ایک بارہ دری بھی ہے جہاں عمران خان صاحب کو عشائیہ دیا گیا۔حیرت کی بات تو یہ کہ ایک بادشاہ نے ہرن کی موت کے سوگ میں یہ مینار بنوایا تو دوسرا سیاسی’’ بادشاہ ‘‘یہاں بیٹھ کر اس ہرن کا گوشت کھا رہا ہے۔ عجب زمانے کی نیرنگی ہے۔ اب یہ وہ سیاسی بادشاہ لوگ ہیں جو دن رات غریب بھوکے ننگے عوام کے غم میں مرے جاتے ہیں۔ خوب ٹسوے بہاتے ہیں بقول شاعر؎
قوم کے غم میں ڈنر کھا تے ہیں آرام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
سو جناب جس بادشاہ نے یہ ہرن مینار بنایا اور جس نے یہاں بیٹھ کر ہرن کا گوشت کھایا دونوں کی عوام سے محبت ڈھکی چھپی نہیں ۔ ایک نے عدل کی زنجیر لٹکائی تو دوسرا انصاف کی دہائی دیتا پھرتا ہے۔ مگر عوام اس وقت سے لے کر آج تک ’’ نظام بادشاہی ہو یا جمہوری تماشہ ہو‘‘ یہ سب تماشے خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
ہر جماعت ڈانس پرفارمنس میں بازی لے رہی ہے ،مولانا فضل الرحمن
جی جناب جب ملک میں چاروں طرف جلسوں کا سیزن چل رہا ہو گا ۔ جو جماعت ستمگر دسمبر کو پوری طاقت کے ساتھ الوداع کرنے کے موڈ میں ہو تو پھر یہی کچھ ہو گا۔ دسمبر2017ء جا رہا ہے۔ خیبر سے مہران تک بلوچستان سے خیبر پی کے تک تمام سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کو پتہ چل گیا ہے کہ 2018ء الیکشن کا سال ہے۔ اسی لئے یہ میلہ سجایا جا رہا ہے۔ جیسے کسی زمانے میں شہروں میں اور آج کل زیادہ تر دیہات میں میلے لگائے جاتے ہیں، جن میں سرکس اور موت کے کنویں بھی لگتے ہیں۔ جس کے سٹیج پر مشہور گلوکاروں کے مقبول نغمات بہروپیئے اور سٹیج ڈانسر رقص کر کے لوگوں کا دل بہلاتے ہیں اور انہیں سرکس کے ٹکٹ خریدنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اب جس سرکس کے پاس اچھے ڈانسر ہوںوہاں ٹکٹیں خریدنے والوں کے ساتھ عام تماشائیوں کا بھی خاصہ رش لگا رہتا ہے جو شو کے کامیاب ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ شاید اس لئے مولانا نے ڈانس پرفارمنس کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب اس میں سیاسی جماعتیں بازی لے جارہی ہیں۔ تحریک انصاف کے جلسوں سے ڈانس کلچرکو اگر فروغ ملا ہے تو پیپلز پارٹی کے جلسے اس کلچر کے بانی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ان کے ہاں اس رقص کو دھمال کہا جاتا ہے۔ اب تو ہر جماعت اس موسیقی اور رقص کی بدعت میں مبتلا ہو گئی ہے۔ مقصد وہی شاید رش لگانا ہوتا ہے۔
پاک فوج بھارتی گجرات کے الیکشن میں مداخلت کر رہی ہے، مودی کا الزام
ٹرمپ کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم مودی کی دماغی حالت پر بھی اب ہمیں شک ہونے لگا ہے۔ موصوف کے حالیہ اس بیان نے تو ثابت کر دیا ہے کہ ان کی بھی اوپر والی منزل خالی ہے ۔ اس بار لگتا ہے گجرات الیکشن میں مودی جی کو حالات خراب نظر آنے لگے ہیں۔ اسلئے انہوںنے کانگریس پر تبریٰ کستے ہوئے پاکستان کے ایک سابق فوجی افسر پر الزام لگایا ہے کہ وہ گجرات الیکشن میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کر رہے ہیں۔ اور ایک مسلمان احمد پٹیل کو گجرات کا وزیر اعلیٰ بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ان کی اس ہرزہ سرائی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک بار پھر مذہب اور پاکستان دشمنی کی آڑ لے کر ہندو ووٹروں کو گمراہ کرکے اپنے ووٹ پکے کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح مودی صاحب نے کانگریس کے امیدوار سابق وزیر مانی شنکر کو بھی نیچ آدمی قرار دیتے ہوئے ان پر پاکستانی فوجی افسروں کے ساتھ رابطوں کا الزام لگایا ہے۔ یوں اس وقت وہ بھارتی سیاستدان اور وزیر اعظم کم اور ایک ان پڑھ گنوار دیہاتی عورت زیادہ لگ رہے ہیں جو اپنی ہر پڑوسن کو موقع بے موقع کوستی رہتی ہے۔ اس سے پہلے بھی بھارتی وزیر اعظم مودی کو ان پڑھ دیہاتی عورت کے نام سے کافی شہرت ملی ہے ۔اب لگتا ہے وہ اپنے اس کردار کو حقیقی طور پر منوانے کے چکروں میں ہیں۔ حکومت پاکستان کے ترجمان نے تو مودی جی کے ان الزامات سے برأت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موصوف اپنے پھڈوں میں ہمیں نہ گھسیٹیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
روم: 1700 سال پرانا غرق شہر دریافت، حیران کن انکشافات سامنے آ گئے۔
قدیم روم کا شہر بیائی 1700 سال قبل سمندر میں غرق ہو گیا تھا۔ جسے اب ماہرین آثار قدیمہ نے دریافت کر لیا ہے اور اس کے متعلق ایسے انکشافات کئے ہیں کہ ہر سننے والا خدا کے قہر سے ڈرے گا۔ یہ شہر اٹلی کے مغربی ساحل پر موجود اور قدیم روم میں بدکاری کا گڑھ تھا۔ 1700 سال قبل آتش فشاں عذاب الٰہی کی صورت پھٹا اور شہر، 400 میٹر دھنس گیا۔
شہر بیائی کی دریافت دعوت عبرت ہے اور تاریخ اس عبرت کی داستان ہے جو چاروں صرف پھیلی ہوئی ہے۔ اس سے پہلے بھی اٹلی کا ایک شہر پومپپسیائی اسی طرح آثار قدیمہ والوں نے کھود نکالا تھا۔ جو تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے آتش فشاں کے لاوے تلے دب گیا تھا۔ فرمان الٰہی ہے کہ وہ کسی بستی کو یونہی نہیں بتاہ کر دیتا جب تک کہ اس کے کرتوت حد سے نہ بڑھ جائیں۔ یہ تو ایک دو شہروں کی کہانی ہے یا عاد و ثمود ایسی دیگر صدیوں بستیوں کا قصہ جو پیغمبروں کو جھٹلاتی گئیں اور بالآخر عذاب الٰہی کی گرفت میں آ کر ہمیشہ کے لئے داستان عبرت بن گئیں لیکن ایسے بھی واقعات ہوئے ہیں کہ لاکھوں مربع میل پر مشتمل براعظم سمندر برد ہو گئے۔ اسی طرح کے ایک براعظم کی گزشتہ صدی نشاندہی کی گئی جو مغربی افریقہ کے ساحل سے تھوڑا سا پرے اطلانتک میں تہہ نشین ہو گیا۔ طوفان نوح اب ایک مذہبی واقعہ ہی نہیں رہا، تاریخی طور پر بھی ثابت ہو چکا ہے۔ فاعتبرو یا اولی الابصار۔