ہفتہ ‘ 19 ذوالقعد 1438ھ‘ 12 اگست 2017
چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے ناچ گانے کو ”ازراہ تفنن“ ورزش قرار دےدیا۔
رضا ربانی اکثر سنجیدہ رہتے ہیں‘ نہ جانے ان کی رگِ ظرافت کیسے پھڑکی کہ مشرف کے ناچ گانے کو ”ورزش“ قرار دے دیا جبکہ مشرف تو ناچ گانے کو ”روحانی“ غذا سمجھتے اور کئی دکھوں کا علاج گردانتے ہیںبلکہ اس سے بھی بڑھ کر انہیں جب بھی روحانی غذا کی طلب محسوس ہوتی ہے طبلے‘ سرنگی اور گھنگھرو¶ں کا اہتمام کرکے اپنی یہ طلب پوری کر لیتے ہیں۔ اگر ٹھمکا بھی لگانے کی ضرورت محسوس ہوتی‘ تو انہیں تھرکنا بھی جسے بدذوق ناچنا کہتے ہیں آتا تھا‘ فوج میں ان کا تعلق‘ کمانڈو گروپ سے تھا‘ وہ اپنے اس ”رتبے“ پر فخر بھی کیا کرتے تھے۔ چونکہ شجاعت سے بہرہ¿ وافر پایا اس لئے‘ بعض اوقات‘ جہاں قیام کی ضرورت ہوتی تھی‘ سجدہ میں گر جایا کرتے تھے‘ اس سلسلے میں‘ آرمٹیج کے ٹیلی فون کا آنا‘ اور ان کا ٹیلی فون پر ہی ڈھیر ہو جانا‘ ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ بھلا جس کی‘ استقامت اس درجے کو پہنچی ہو‘ اس سے ورزش‘ ڈنڈ‘ بیٹھکیں اور ڈنٹر پیلنا کیسے ہو سکتا ہے۔ شنید ہے کہ انہوں نے اقتدار کے طویل مراقبے کے دوران یہ راز پایا‘ کہ‘ ناچ گانا بہترین ورزش ہے۔ موصوف ان دنوں کمر درد کے علاج کے لئے بیرون ملک مقیم ہیں جہاں دوا¶ں‘ ٹیکوں اور دیگر مشقوں کی بجائے ناچ گانے کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ دروغ بر گردن راوی‘ انہیں کافی افاقہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ جلد ہی پہلی فارم پر آ جاتے‘ لیکن جونہی انہیں پاکستان سے عدالت کا بلاوا آتا ہے علاج بے اثر ہو جاتا ہے‘ اور کمر کا درد ضعفِ جگر تک جا پہنچتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
دانیال عزیز نے حلف اٹھا لیا‘ وفاقی کابینہ کی تعداد 47 ہو گئی۔
شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں دانیال عزیز کا نام بطور وزیر مملکت شامل کیا گیا تھا مگر انہوں نے منہ بسور لیا۔ وہ حلف لینے نہیں گئے۔ ساتھ ہی یہ بیان بھی داغ دیا کہ وہ ناراض نہیں ہیں۔ انکے اس بیان کو انکے حلقے کے لوگوں نے بالخصوص اور خلقِ خدا نے بالعموم اتنا ہی سچا اور درست سمجھا جتنا انکے سپریم کورٹ کے باہر پاناما کیس کی سماعت کے بعد کے بیانات کو سمجھتے تھے اور انکے اس بیان کی حقانیت اس وقت کھل کر سامنے آ گئی جب ان کو وفاقی وزیر تعینات کر دیا گیا۔ وہ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی ٹھاٹھیں مارتی ریلی جو ایک موقع آسمان سے ٹوٹتے ستارے کی سی تیزی سے رواں تھی‘ کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ حلف برداری کا سنا تو گولی کی سپیڈ سے اسلام آباد کےلئے روانہ ہوئے۔ اب شاید خطرہ تھا ان کا حلف کوئی اور نہ اٹھا لے۔ میاں صاحب کی ریلی مشرف کی یاد کو محو نہیں ہونے دیتی‘ میاں صاحب کے ارد گرد جب دانیال عزیز‘ ماروی میمن‘ امیر مقام اور طلال چودھری ہوں گے تو کیا منکر نکیر کی یاد آئیگی۔
طلال چودھری بہرحال چند کلیوں پر قناعت کر گئے ورنہ وہ بھی تھوڑا روٹھتے‘ تھوڑا منہ بسورتے اپنی خدمات یاد دلاتے تو ان کیلئے بھی وفاقی وزارت کا قلمدان حاضر ہو سکتا تھا ویسے انکی زبان دانی اور بیان دانی تو انکے وزیراعظم کے منصب کیلئے بھی روا تھی۔ اب بہرحال یہ لوگ اگر وزیر بن گئے ہیں تو اپنے منصب کے ساتھ انصاف کریں۔ دانیال عزیز کیا انصاف کریں گے۔ ان کو تو ابھی تک کوئی قلمدان نہیں دیا گیا۔ یہ بھی ہمارے ہاں ہی ہوتا ہے کہ فیصلے پہلے ہوتے ہیں جواز بعد میں دیا جاتا ہے۔ وزیر پہلے بنائے جاتے انکی ذمہ داری کا تعین بعد میں ہوتا ہے۔
”روک سکو تو روک لو“ نوازشریف 130 کلومیٹر کی سپیڈ کے ساتھ پنڈی سے چلے گئے: نیّر بخاری
نیّر بخاری چیئرمین سینٹ رہے انہوں نے اچھا طنز کیا ہے۔ میاں صاحب کی حمایت میں لگے بینرز پر یہ تحریر عام بلکہ سرِعام پائی جاتی ہے روک سکو تو روک لو۔ دراصل یہ مریم نوازشریف کا نوازشریف کی نااہلیت کے فیصلے سے قبل کا قول ہے۔ نیّر بخاری کے مذکورہ بیان میں جہاں ایک لطیف طنز موجود ہے وہیں انہوں نے یہ کہہ کر اپنا کثیف غصہ بھی نکالا کہ عوام کی لاتعلقی نے چیونٹی کو دیا گیا شیر کا لقب بھی واپس لے لیا۔ کسی بھی ریلی میں عوام کی پذیرائی یا لاتعلقی کا فیصلہ کوئی آسان نہیں ہوتا۔ حامیوں کو ریلی میں عوام کے ریلے نظر آتے ہیں جبکہ مخالفین عوام کے سمندر کو کوزے میں بند کر دیتے ہیں۔ بہرحال اس ریلی میں ہونی تو ہونی ہی تھی‘ انہونیاں بھی ہو رہی ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے ریلی کے دوسرے روز چودھری نثار کی جگہ میاں نوازشریف کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی‘ ان کے کان میں کسی نے نجانے کیا کہا کہ انہوں نے گاڑی بھگا نہیں ہوا کے دوش پر اڑا دی۔ وہ کنٹینر بھی پیچھے رہ گیا جو میاں نوازشریف کے لئے بنایا گیا ہے مگر وہ اس میں شاید ہی سوار ہوئے ہیں۔ ایک خبر یہ بھی نشر ہوئی کہ خواجہ سعد رفیق گاڑی کی چھت سے گر گئے۔ اگر وہ ریلی میں نمایاں نہ ہوتے تو لوگ سمجھتے کہ شاید ریل گاڑی کے ڈبے کی چھت سے گر گئے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ وہ چھت سے دو لوگوں پر گرے‘ اگر سیدھے سڑک پر گرتے تو انہونی ہو سکتی تھی۔ اب چوٹیں تین لوگوں میں منقسم ہو گئیں۔ وہ چھت سے گرے جبکہ میاں نوازشریف کی نظروں میں انکا رتبہ مزید بلند ہو گیا۔ اگر یہ وقوعہ نااہلیت کے فیصلے سے قبل رونما ہوا ہوتا تو شاید خواجہ صاحب وزیراعظم ہا¶س میں رونق افروز ہوتے۔ لیڈر کی نظروں میں سرخرو ہونے سے انکی دردیں تو کم ہو گئی ہوں گی جو شریک درد تھے ان کا بھی کچھ مداوا کیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ آئین کی دفعات 62 اور 63 کو ختم کرنے کی باتیں چھوڑ کر انہیں ججوں اور جرنیلوں پر بھی لاگو کیا جائے۔
اسوہ¿ حسنہ ہے‘ اس پر ہر مسلمان کو عمل کرنا چاہئے۔ اس لحاظ سے آئین کی ان دفعات کو آئین کا حصہ بنانا‘ یہ اعتراف کرنے کے مصداق ہے کہ ہم ڈنڈے کے بغیر امین و صادق ہونے کو ضروری نہیں سمجھتے۔ ابھی حال ہی میں‘ سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو نااہل کرنے کیلئے‘ انہی دفعات کو استعمال کیا۔ امین و صادق ایک صفت ہے جسکے قائم ہونے کیلئے کسی عدالت کی ضرورت نہیں‘ لازم ہے کہ ہم میں سے ہر مسلمان‘ اور جج اور جرنیل بدرجہ اولیٰ اس کے مصداق ہوں‘ لیکن جب کوئی قانون کا پیشہ اختیار کرتا ہے‘ یا فوج میں بھرتی ہوتا ہے تو اس وقت ایسی کوئی شرط نہیں لگائی جاتی کہ صرف وہی ملازمت کا اہل ہو گا جو امین و صادق ہو گا۔ وکیل (جن میں سے بعدازاں جج منتخب ہوتے ہیں‘ جو آگے چل کر قاضی القضاہ کے منصب تک بھی جا پہنچتے ہیں‘ ایسی کسی شرط پر کم ہی پورا اترتے ہیں ورنہ اکبر الہ آبادی کو جو خود‘ وکیل اور جج بھی رہ چکے تھے نہ کہنا پڑتا ....
پیدا ہوئے وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہو گئے
پہلے اس معاشرے میں خوف خدا پیدا کریں‘ دفعات 62‘ 63 کی صفات خود بخود پیدا ہو جائیں گی‘ بصورت دیگر ”گنہگار“ کو پہلا پتھر وہ مارے‘ جس نے خود کبھی گناہ نہ کیا ہو۔
٭٭٭٭٭٭