پیر‘22 ؍ ربیع الاوّل 1439ھ‘11 ؍ دسمبر2017ء
کمزور نہیں کہ استعفے مانگیں، حکم دے رہے ہیں: طاہر القادری
بے شک درست فرما رہے ہیں مولانا صاحب… جب واعظ منبر پر ہو یا سیاستدان پریس کانفرنس میں تو سمجھ لیجئے مستند ہے ’’ان‘‘ کا فرمایا ہوا۔ انہیں اجازت ہوتی ہے جو چاہیں کہیں کون ان کو روک سکتا ہے۔ اب گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں طاہر القادری صاحب نے بھی یہی ارشاد فرمایا کہ ہم کمزور نہیں کہ استعفے مانگیں، ہم حکم دے رہے ہیں یعنی مولانا صاحب کا حکم ہے کہ رانا ثناء اللہ اور وزیراعلیٰ پنجاب ان کا حکم سنتے ہی مستعفی ہو جائیں۔ یوں ’’گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘۔ مولانا نے حکومت کو بھی شاید اپنی جماعت سمجھ لیا ہے کہ جہاں ان کے منہ سے جو نکلا اس پر فوراً عمل ہوتا ہو گا۔ خدا جانے ہمارے سیاستدان یا واعظ جب لب کھولتے ہیں تو یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کی گلفشانی سے کیسے کیسے لطائف جنم لیں گے! لوگ ایسی باتیں سن کر ہنستے ہیں… حکم دے کر تو کوئی وزیر اپنے چپڑاسی کو برطرف نہیں کر سکتا۔ لگتا ہے عمران خان، آصف زرداری اور مصطفی کمال سے ملاقاتیں کر کے مولانا ایک بار پھر خود کو پاکستانی سیاست کا محور سمجھنے لگے ہیں۔ اب وہ اپنے آپ کو مدار المہام سمجھیں یا محور ان کی مرضی… مگر یہ اعزاز صرف نوابزادہ نصراللہ خان کو ہی حاصل تھا کہ ہمہ وقت اپنے ارد گرد تمام بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے سیاستدان کو جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ مولانا طاہر القادری کی طرح ان کی بھی پارلیمنٹ میں کوئی نمائندگی نہیں تھی سوائے ان کی اپنی ایک سیٹ کے مگر ان کی ذات میں وہ مقناطیسی کشش تھی کہ پاکستانی سیاست کے وہ امام تھے… باقی سب بڑی بڑی جماعتوں کے سربراہ بھی انکے مقتدی! قادری صاحب میں یہ صفت بھی نظر نہیں آتی، فی الحال وہ صرف اور صرف عمران خان کے منہ بولے بڑے بھائی ہیں۔ وہ بھی ایسے کہ انکا چھوٹا بھائی بھی انکی بات پر دھیان نہیں دیتا تو کون دوسرا انکا حکم کیا خاک مانے گا!
٭…٭…٭…٭
کراچی میں متحدہ لندن کی خواتین کی بانی تحریک کے حق میں نعرے بازی
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ہم لوگ اپنے اندر چھپے دشمنوں کو جاننے کے باوجود بھی ان پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ متحدہ لندن کے حوالے سے سب جانتے ہیں کہ پاکستان دشمن ٹولہ ہے جس کا قائد لندن میں بیٹھ کر پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے خود اس کے اپنے ساتھی اس سے اعلان بیزاری کر کے متحدہ پاکستان کے نام پر علیحدہ ہو چکے ہیں۔ اب تو متحدہ لندن کے مزید 4 بڑے نام بابر غوری‘ شمیم صدیقی‘ ڈاکٹر ندیم اور عنبر خان بھی لندن والے بھوت سے جان چھڑانے میں کامیاب ہو گئے تو ایسے میں کراچی میں جن چند درجن بھر لوگوں نے متحدہ لندن کے نام پر یوم شہداء پر ڈرامہ رچانے کی کوشش کی اور خواتین نے لندن والے وطن دشمن بھوت کے حق میں نعرے لگائے تو پولیس نے انہیں پکڑنے کے بعد چھوڑ کیوں دیا۔ اگر چھوڑنا ہی تھا تو پھر پکڑا کیوں تھا۔ اگر کوئی ایسی حرکت کرتا ہے تو اسے بہرصورت نشان عبرت بنانا وقت کی ضرورت ہے تاکہ دوسروں کو بھی نصیحت ہو اور اگر کوئی ایسی ناپاک جسارت کرے تو اسے اگر بعد از گرفتاری چھوڑنا ہی تھا تو کم از کم کراچی سے دو سو کلومیٹر دور لے جا کر چھوڑنا چاہئے تھا تاکہ پیدل سفر کر کے اس کی عقل ٹھکانے آئے۔ حیرت کی بات ہے ایک طرف بڑے بڑے نام لندن والے بھوت سے جان چھڑانے میں عافیت محسوس کر رہے ہیں اور دوسری طرف یہ درجن بھر خواتین کے سر پر وہی بھوت ناچ رہا ہے!
٭…٭…٭…٭
لال چوک میں بھارتی ترنگا لہرانے کی کوشش ناکام
بھارتی انتہا پسند حکمران جماعت بی جے پی جموں کے عہدیداروں نے بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا کہ وہ سرینگر جا کر وہاں کے مشہور لال چوک میں گھنٹہ گھر پر بھارتی ترنگا لہرائیں گے۔ حکومت کی سرپرستی میں جموں سے بڑی شان سے جو جلوس نکالا سرینگر تک پہنچتے پہنچتے اسکا حال 4 چوہوں والی نظم کا ہو گیا۔ کہاں سینکڑوں کا لشکر لے کر سرینگر تک پہنچنے کے دعوے،کہاں پولیس کی حفاظت میں 8 افراد ایک دوسرے کا منہ دیکھتے نظر آئے جن کے حلق سے خوف کے مارے آواز بھی نہیں نکل رہی تھی‘ رنگ فق تھا۔ ’جئے ہند‘ یا ’بھارت ماتا کی جے‘ کا نعرہ لگانا تو دور کی بات وہ تو مودی زندہ باد بھی نہ کہہ سکے۔ صحافی اور پولیس والے کافی دیر تک انتظار کرتے رہے کہ وہ بھی دیکھیں کہ کون کون آتا ہے… اپنا شوق پورا کرنے مگر کشمیری عوام کی طرف سے سخت ردعمل کے خوف سے یہی چند افراد جھنڈا تو کیا لہراتے اپنی جان بچانے کے چکر میں ایک قدم بھی لال چوک کے گھنٹہ گھر کی طرف نہیں بڑھا سکے۔ یوں…ع
دل کے ارماں آنسوئوں میں بہہ گئے
بالآخر پولیس والوں نے تنگ آ کر انہیں حفاظت میں لے کر پولیس وین میں ٹھونس دیا کیونکہ زیادہ دیر ان کا وہاں کھڑے رہنا بھی خطرناک تھا۔ یوں ان بے چارے بی جے پی والوں کی ترنگا لہرانے کی خواہش ادھوری رہ گئی! کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ گھنٹہ گھر کا رخ کرتا۔ گھنٹہ گھر پر صرف اور صرف پاکستانی پرچم ہی لہرایا اور سجایا جاتا ہے، جب بھی کوئی مظاہرہ ہوتا ہے ریلی ہوتی ہے جلسہ ہوتا ہے، سبز چاند ستارے اور پرچم یہاں لہراتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور کی ہمت نہیں کہ وہ یہاں بھارت کا یا کسی اور کا پرچم لہرائے…
٭…٭…٭…٭
ایشیا پاور لفٹنگ چیمپئن شپ میں 2 پاکستانی خواتین نے چار چار گولڈ میڈل حاصل کئے۔
سنگاپور میں جاری ان مقابلوں میں پاکستانی کی طرف سے 4 خواتین اور 3 مردوں پر مشتمل دستہ حصہ لے رہا ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان کے اس سات رکنی سکواڈ نے 11 گولڈ میڈل حاصل کئے ہیں جن میں سے 8 میڈل تو سنہیا غفور اور ٹوئنکل سہیل نے حاصل کئے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب پاکستانی خواتین کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں میں بھی آگے نکل رہی ہیں۔ وہ بھی ایسے کھیلوں میں جن میں اچھے اچھے مردوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔ ماتھے پر پسینہ آ جاتا ہے۔ پاور لفٹنگ ایک مشکل گیم ہے جس میں خاصی محنت کرنا پڑتی ہے۔ ہماری حکومت اور وزارت کھیل کو ابھی تک کرکٹ کے کھیل سے فرصت نہیں ہے، وہ اس کی سیاست اور کھیل میں مصروف ہیں، انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ دوسرے کھیلوں میں موجود ٹیلنٹ پر بھی توجہ دیں۔ اب پاور لفٹنگ جیسے مشکل اور محنت طلب کھیل میں اگر پاکستانی مرد و خواتین اتنی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں تو وزارت کھیل کو چاہئے کہ وہ اپنی آنکھوں پر چڑھی پاکستان کرکٹ والی عینک اتار کر اس طرف بھی توجہ دیں‘ ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں۔ ان کا تو قومی ہیرو کی طرح وطن واپسی پر استقبال ہونا چاہئے اور حکومت انہیں ہر طرح کی سہولت فراہم کرے تاکہ یہ آئندہ بھی ایسے ہی کارنامے انجام دیتی رہیں۔ ٭