منگل ‘ 19 محرم الحرام 1439ھ‘ 10 اکتوبر2017
سرینگر میں عدنان سمیع کا کنسرٹ ناکام ہو گیا۔
یہ تو بڑے شرم کی بات ہے۔ اب اگر کہیں چلو بھر پانی موجود ہوتا تو بہتر تھا کہ وہ اس میں ڈوب مرتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔کہتے ہیں بے شرمی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ مگر غدار عدنان سمیع جیسے لوگوں کیلئے اس کام کی بھی حد نہیں ہوتی۔ بھارت نے اس ملعون کو شہریت کیا دے دی یہ بدنما انسان اس ملک کے خلاف بولتا رہا جس میں اس کا جنم ہوا تھا۔ اب خدا کا کرم ہے کہ یہ پاکستانی نہیں۔ بھارتی شہری ہے۔ جو گند اس نے مچانا ہے بھارت میں ہی مچائے گا۔ یہ بھارت والے ویسے ہی کسی پر مہربان نہیں ہوتے پہلے اچھی طرح اس کی نمک حرامی کو پرکھتے ہیں دیکھتے ہیں وہ اس فعل میں کتنا آگے تک جا سکتا ہے۔ اسکے بعد اسے بھارتی بناتے ہیں۔ عدنان سمیع جیسے غدار سے قبل نشاط باغ سرینگر میں چند برس قبل بھارتی اور برطانوی موسیقاروں نے کشمیری موسیقاروں کے ساتھ مل کر ایک محفل کشمیر سجائی تھی۔ جس میں چند سو بھارتی بیوروکریٹس‘ اعلیٰ سول و فوجی حکام اور غدار قسم کے سیاستدان اپنے اہل عیال سمیت شریک تھے مگر وہ محفل عوام کی نظروں میں کوئی جگہ نہ بنا سکی۔ اب اس غدار سمیع خان نے تو کشمیر میں موجود بھارتی ظالم فوجیوں کا مورال بلند کرنے کیلئے بطور میراثی اپنی خدمات پیش کیں اور سازندے اور گانے بجانے کا سامان لے کر سرینگر پہنچ گیا۔ اب یہ تو اسے معلوم تھا کہ اگر کسی کھلے مقام پر اس نے اپنی میراثیت کا مظاہرہ کیا تو کشمیری اس کا بینڈ بجا دیں گے اسلئے بھارتی حکومت اور کٹھ پتلی کشمیری انتظامیہ نے مل کر اسے ڈل کے کنارے واقع شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ میں ایک محفوظ مقام عطا کیا۔ اسکے باوجود کنسرٹ میں خالی کرسیوں کا ہجوم اس بدبخت کا منہ چڑا رہا تھا۔ بہرحال کشمیریوں نے غدار سمیع خان اور اسکے پروگرام کو مسترد کر کے ثابت کر دیا کہ کشمیری کسی ایسے شخص کی پذیرائی نہیں کر سکتے جو پاکستان کا مخالف ہو اور کشمیر میں موجود بھارتی ظالم افواج کی حمایت میں اپنا بھاڑے جیسا منہ کھولتا ہو۔
٭٭٭٭٭٭
2 امریکی بلیک ہاک افغانستان کے سپرد۔ طالبان لڑائی بند کر دیں: اشرف غنی
لگتا ہے افغان صدر یا تو غیر ملکی آب مقطر کے سرور میں زیادہ ہی مدہوش رہتے ہیں یا پھر مقامی پوست کا خمار انہیں مست رکھتا ہے۔ یہ دو امریکی ہیلی کاپٹر افغانستان کو کیا ملے افغان صدر کے دماغ میں اپنی فوج اور غیر ملکی افواج کی طاقت کا گھمنڈ پھر جاگ اٹھا اور وہ طالبان کو دھمکیاں دینے لگے کہ وہ لڑائی بند کر دیں ورنہ.... ورنہ وہ کر ہی کیا سکتے ہیں۔ آدھا افغانستان ویسے ہی طالبان کے زیر قبضہ ہے۔ باقی میں بھی ان کا حکم چلتا ہے۔ نیٹو اور امریکی افواج نام نہاد افغان افواج کے ساتھ مل کر صرف کابل و دیگر بڑے شہروں میں افغان حکام اور افغانستان کی نام نہاد حکومت اور اپنا دفاع کرنے کےلئے مصروف ہیں۔ اسکے بعد بھی اگر اشرف غنی اس خیال میں مبتلا ہیں کہ طالبان افغان حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو اسے مجذوب کی بڑ ہی کہا جا سکتا ہے۔ افغان طالبان ایک زندہ حقیقت ہیں۔ جب تک یہ بات افغان صدر‘ ان کی حکومت اور نیٹو اتحادی تسلیم نہیں کرینگے اس وقت تک بلیک ہاک ہیلی کاپٹر ہوں یا ڈیزی کٹر بم افغانستان کو قبرستان تو بنا سکتے ہیں مگر وہاں امن قائم نہیں کر سکتے۔ قبرستان میں ترقی اور خوشحالی نہیں صرف اور صرف خاموشی نظر آتی ہے۔ شاید یہی افغان حکومت اور اسکے اتحادیوں کی خواہش ہے کہ
گلیاں ہو جان سنجیاں
وچ مرزا یار پھرے
مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ دوسروں کے سہاروں پر کھڑی عمارت خواہ وہ کتنی ہی پائیدار کیوں نہ نظر آتی ہو اسے ایک نہ ایک دن گرنا ہی ہوتا ہے....
٭٭٭٭٭٭
ایم کیو ایم نے زبان بند نہ کی تو ثبوت سامنے لا¶ں گا: فیصل واڈیا
ابھی تو ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے ملن کے معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی ہے یہ فیصل واڈیا کوکیا ہو گیا۔ لگتا ہے یہ وہ گروپ ہے جو ایم کیو ایم جیسی جماعت کے ساتھ تحریک انصاف کے جبری رشتہ پر رضامند نہیں۔ پاکستان کی کون سی جماعت ہے جسکے ساتھ ایم کیو ایم نے رشتہ نہ جوڑا ہو۔ وہ تمام جماعتیں ایم کیو ایم کی بے وفائی پر آج تک دہائی دیتی نظر آتی ہیں۔ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ نون یا ق۔ سب اسکے شاکی ہیں۔ اب تحریک انصاف میں ہی شامل وہ لوگ ہیں جو گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر آئے ہیں تاکہ اس نئے کنویں کے تازہ پانی سے بھی سیراب ہو سکیں وہ پریشان ہیں۔ ویسے بھی فی الحال انکی کشت ویراں میں بہار کا گزر نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے وہ اکھڑے اکھڑے بھی نظر آتے ہیں۔ سندھ میں ایم کیو ایم کے ہاتھوں ستائے گئے لوگوں کی تعداد اتنی ہے کہ وہ اگر الطاف حسین کی بھینٹ بھی چڑھائے جائیںتو بھی لوگوں کی تکالیف کا مداوا نہ ہو سکے گا۔ مگر کیا کریں سیاست اور خان صاحب کے سینے میں لگتا ہے دل نہیں ہے اسی لئے وہ اپنوں سے زیادہ اپنی مرضی کرتے پھرتے ہیں۔ چونکہ وہ تن تنہا خود کو تحریک انصاف سمجھتے ہیں اسلئے انکے آگے کسی کو بات کرنے کا مشورہ دینے کا یارا کہاں۔ جو بات کریگا مشورہ دےگا اس کا حال جاوید ہاشمی‘ وجیہہ الدین‘ گلالئی اور ضیا آفریدی جیسا ہو سکتا ہے۔ ویسے آجکل شاہ محمود قریشی بھی چپ چپ کھڑے ہیں۔ دیکھتے ہیں اب فیصل واڈیاکی لاف زنی کیا رنگ لاتی ہے۔ ایم کیو ایم کا تو کچھ نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ آج کل خان صاحب کی بغل میں ہے۔ البتہ واڈیا جی کا پتہ نہیں کیا ہوتا ہے
٭٭٭٭٭٭
میرٹ ہو تو مراد سعید اور بلاول زرداری کا کوئی مقابلہ نہیں: عمران خان
ناں ناں ناں خان صاحب ایسی بات نہیں ہے۔ دونوں میں کم از کم یہ بات تو مشترک ہے کہ دونوں گلابی اردو بولتے ہیں۔ اس میں ان کا مقابلہ ہو سکتا ہے کہ کون بہتر سے بہتر گلابی اردو بولتا ہے۔ پشتو لہجے میں اردو بولنے والا یا رومن لہجے میں اردو بولنے والا۔ تذکیر و تانیث میں بھی دونوں ہم پلہ ہیں۔ اس میں بھی مقابلہ ہو سکتا ہے۔ جو خاصہ دلچسپ ہو سکتا ہے۔ عوام بھی اس میں بھرپور دلچسپی لیں گے۔ پھر دیکھا جا سکتا ہے کہ کون میرٹ پر پورا اترتا ہے۔ویسے آخری حل دونوں کے درمیان کشتی یا ملاکھڑا کے مقابلے سے بھی کرایا جا سکتا ہے کو کون کس کو چت کر کے دکھاتا ہے۔ خیر یہ تو بعد کی باتیں ہیں سیاسی دنگل میں البتہ مقابلہ ہو تو مزہ آ جائے۔ دونوں رہنما پشاور اور حیدر آباد میں مدمقابل ہوں تو خود بخود قیامت کا جوڑ پڑیگا۔ پھر پتہ چلے گا کہ پٹھا عمران خان میدان مارتا ہے یا پٹھا آصف زرداری۔ دونوں نوجوان ہیں شعلہ بیانی کے ماہر بھی۔ سیاسی میدان میں کون فاتح بنتا ہے یہ بھی جلد پتہ چل جائے گا۔ 2018ءمیں دونوں کو دا¶پیچ لڑانے کا بہترین موقع مل سکتا ہے اسلئے انہیں ابھی سے پنجہ آزمائی کی تیاریاں کرنی چاہئیں۔ میرٹ کا خود بخود پتہ چل جائےگا۔