بدھ‘ 1437ھ‘ 10فروری 2016 ء
عالمی بنک کے صدر پاکستان پہنچ گئے
انکی آمد کے ساتھ ہی وزیر خزانہ سمیت حکومت کے سینکڑوں بہی خواہوں کی باچھیں خوشی کے مارے کھل گئی ہوں گی اور وہ اپنا اپنا کاسہ گدائی سنبھالے دوڑتے ہوئے انکے استقبال کو پہنچے ہوں گے تاکہ عالی مرتبت صدر عالمی بنک انکے کشکول میں چند سکے خیرات کے ڈال کر انہیں ممنون و مشکور کریں۔ اور یہ ٹی وی سکرینوں پر آکر بڑے فخر سے قوم کو خیرات ملنے کی نوید مسرت سنا سنا کر اپنی خوشیاں ان سے شیئر کرتے نظر آئیں۔
دوسری طرف عوام کی یہ حالت ہے کہ کاٹو تو انکے بدن میں لہو نہیں۔ عالمی بنک کے صدر کی آمد کے ساتھ ہی انکی سانسیں رکنے لگی ہیں۔ دلوں کی دھڑکن بے ترتیب ہوتی جا رہی ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ عالمی ساہوکار چند سکے خیرات میں ڈال کر بعد میں سود سمیت یہ رقم عوام کے خون پسینے کی کمائی سے وصول کرتے ہیں اور تمام چیزوں کے دام عالمی بنک کے ساہوکار کے آمد کے ساتھ ہی سلامی دیتے ہوئے آسمان کو چھونے لگتے ہیں۔ عوام کو سب سے زیادہ فکر بجلی، پانی اور گیس کی ہوتی ہے۔ ان پر ہمارے عالمی بنک کے رہنماﺅں کی نظر خاص ہوتی ہے اس لئے کمزور دل اور جیب رکھنے والے لوگ تو انکی آمد سے قبل ہی ”جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو“ کا وظیفہ شروع کر دیتے ہیں۔ کیونکہ....
تیرا آنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
اسلئے انکی آمد کی وجہ سے عوام پریشان اور حکمران خوش ہیں۔
....٭....٭....٭....٭....
باجوڑ ایجنسی میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے تک بچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے انکار۔
لوڈشیڈنگ کا پولیو سے تحفظ کے قطروں سے کوئی تعلق یا ربطہ آج تک عوام یا دانشوروں کو تو نظر نہیں آیا۔ اب یہ باجوڑ کے رہائشی واقعی بہت بڑے کمال کے لوگ نکلے کہ انہوں نے پولیو سے تحفظ کے قطروں اور بجلی کی 20 گھنٹے لوڈشیڈنگ میں ایسا ربط ڈھونڈا ہے کہ عقل حیران اور دماغ پریشان ہے۔بجلی کی لوڈشیڈنگ پورے ملک کیلئے وبال جان بنی ہوئی ہے۔ یہ صرف باجوڑ کا مسئلہ نہیں۔ اسی طرح پولیو کا مرض پورے ملک کیلئے خطرناک ہے یہ بھی صرف باجوڑ کا مسئلہ نہیں۔ اب ان دونوں مسئلوں کو گڈمڈ کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ ویسے بھی افغانستان کے قریبی سرحدی علاقے پولیو کے خطرے سے زیادہ دوچار رہتے ہیں۔ اپنے آنیوالے مستقبل کو یوں ہم اس موذی بیماری سے بچانے میں اگر کوتاہی کریں گے تو لوڈشیڈنگ کے ساتھ یہ بیماری بھی ہمارے مستقبل کو اندھیروں میں ڈبو دے گی۔ رہا پوست کاشت نہ کرنے پر فری بجلی کی فراہمی کا وعدہ تو یہ شاید انہی باقی وعدوں کی طرح ہے جو ہمارے حکمران اور سیاستدان اپنے عوام سے کرتے چلے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے کیونکہ انکا تو ماٹو ہی ”وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا“ والا ہے۔ اسکا گلہ کرنا اسے یاد دلانا بے وقوفی ہی ہے انکی خاطر ہم اپنے بچوں کو اپاہج کیوں بنائیں۔ حکمرانوں کےلئے البتہ یہ احتجاج مقام فکر ہے کہ اگر پوری قوم بجلی اور گیس کے بل تب ہی ادا کریگی جب یہ پوری طرح ملے گی اور ٹیکس تب ہی دینگے جب تمام سہولتیں ملیں گی کے نعرے اور عزم کے تحت کھڑی ہو گئی تو حکمرانوں کا کیا بنے گا۔
....٭....٭....٭....٭....
ہڑتال کا فائدہ اٹھا کر ایک وزیر کی ائرلائن نے کروڑوں کما لئے۔ شیخ رشید
شیخ جی کیا یہ باتیں آپ کو سمجھانا پڑیں گی کہ کسی ایک کے مرنے کا دکھ صرف گھر والوں کو ہوتا ہے۔ اور فائدہ کئی لوگ اٹھاتے ہیں۔ درزی کپڑے والا‘ پھولوں والا‘ چٹائی والا‘ ٹرک والا‘ گورکن‘ دیگ پکانے والا سب کو روزگار اسی مردے کی وجہ سے ملتا ہے۔ اب کیا یہ سب آپ کو معلوم نہیں۔ اگر ہے تو پھر یہ شکوہ کس بات کا۔ یہاں کون فائدہ نہیں اٹھا رہا۔ کسی نے چینی ذخیرہ کی ہے کسی نے چاول کسی نے گندم اور دھڑا دھڑ منافع کما رہے ہیں۔ انہیں بھلا کوئی روک سکا ہے۔ ہاں البتہ انکے بیان سے تھوڑا تھوڑا شک ضرور پیدا ہو رہا ہے کہ کہیں اس ہڑتال کے کروانے میں بھی انہی وزیر کا ہاتھ تو نہیں جو بخوبی جانتے ہونگے کہ پی آئی اے میں ہڑتال ہوئی تو ان کا کاروبار چمک اٹھے گا۔ اس وقت پٹرول بھی سستا ہے۔ یوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جب 7 ہزار کا ٹکٹ 21 ہزار میں بکے گا تو منافع خالص ہی ملے گا یا نہیں۔ پٹرول کی قیمت میں کمی کا منافع الگ۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے یہ سارا دھندا کسی ڈرامے کا حصہ ہے۔ ہڑتال کرنیوالے اور روکنے والے دونوں مل جل کر پی آئی اے کا جنازہ نکالنے کے چکروں میں ہیں تاکہ پی آئی اے کا لاشہ دفنا کر یہاں کسی منظور نظر کی نئی ائر لائن کا اڈا سجایا جائے اور جی بھر کر دونوں ہاتھوں سے مال کمایا جائے۔ یہ ہڑتال کرنےوالے اور حکومت اسی ڈرامے کے کردار لگتے ہیں جو بعد میں اپنا اپنا حصہ وصول کرتے نظر آئیں گے۔
....٭....٭....٭....٭....
عمران چاہتا ہے حکومت پٹرول سستا کرے تاکہ عوام پٹرول چھڑک کر خود کشیاں کریں۔ پرویز رشید
ویسے یہ آئیڈیا بھی خوب آیا ہے وزیر اطلاعات و نشریات کے ذہن میں عوام کو پٹرولیم کی قیمتیں کم کرنے سے ڈرانے کا۔ اگر بے وقوف لوگ (جو اب کم ہی رہ گئے ہیں) ان وزیر اطلاعات کی نشریاتی باتوں کو سچ مانے لگ گئے تو واقعی وہ شکر ادا کرینگے پٹرول کی قیمت حکومت نے مزید کم نہیں کی ورنہ کیا پتہ کتنے لوگ خود کشیاں کرتے۔ حالانکہ حکومت کو خود کشیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
اب کوئی ان سے پوچھے کہ جناب کیا یہی فارمولا حکومت نے آٹا‘ دال‘ چاول‘ چینی‘ گوشت‘ سبزی‘ برائلر اور گھی پر بھی نافذ کیا ہوا ہے۔ کہ اگر ان کی قیمتوں میں کمی کی گئی تو لوگ مارے خوشی کے زیادہ کھا کھا کر مرنے لگیں گے۔ ان بھولے بادشاہ کو پتہ نہیں کہ مہنگائی‘ بے روزگاری اور غربت کے ہاتھوں خود کشیاں کرتے ہیں۔ ارزانی اور قیمتوں میں کمی کی وجہ سے خود کشیاں کم ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ آج تک کسی نے نہیں سنا یا دیکھا ہو گا کہ کسی ملک میں اسلئے خود کشیاں بڑھی ہیں کہ وہاں کے عوام کا معیار زندگی بہتر ہوا ہے۔ اب وزیر اطلاعات عوام کو پٹرول سے خود کشی کا ڈراوا نہ دیں بلکہ حکومت پٹرول کی قیمت میں حقیقی کمی کرکے انہیں خود کشیوں سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کرے....
....٭....٭....٭....٭....