ہفتہ‘20 ؍ ربیع الاوّل 1439ھ‘9 ؍ دسمبر2017ء
مود ی کو نیچ کہنے پر کانگریس پارٹی نے منی شنکر آئر کی رکنیت معطل کردی
بھارتی سیاسی جماعت کانگرس نے منی شنکر آئر کی رکنیت معطل کردی اور شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا۔ انہوں نے ایک جلسے میں بی جے پی کے صدر اور وزیراعظم نریندر مودی کو جوش خطابت میں ’’نیچ‘‘ کہہ دیا تھا۔ سیاسی جلسوں میں مخالفین پر تنقید عام بات ہے اور اکثر موضوع ہی یہی ہوتا ہے لیکن اچھے سیاستدان شائستگی کا دامن نہیں چھوڑتے۔ تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم نے لاکھوں کے اجتماعات کو خطاب کیا کیا مجال کہ منہ سے کوئی سوقیانہ‘ یا شائستگی کیخلاف کوئی لفظ نکلا ہو‘ مخالفین میں بڑے قدآور سیاستدان‘ گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو ایسے لوگ شامل تھے۔
قائد نے چومکھی لڑائی لڑی لیکن کبھی مخالفین کی شکل‘ ذات اور سماجی مرتبہ کا مذاق نہیں اڑایا بلکہ انہوں نے اپنے طرز عمل سے موافق اور مخالف سیاستدانوں کو سیاست سکھائی۔ ان کی اس صفت کے اپنے پرائے سبھی قائل تھے۔ ہم نے اپنے بزرگوں کی روایات چھوڑ دی ہیں نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ انہیں نیک و بد سمجھانے کیلئے غیروں کی مثال دینا پڑتی ہے ۔ انکی جنہیں ہم نے شائستگی سکھائی۔ اوئے توئے کرکے حاضرین جلسہ کو گرمایا تو جاسکتا ہے‘ جوش دلایا جاسکتا ہے لیکن اپنی عزت کھو کر۔ ممکن ہے یہاں بعض لوگوں کو کانگریس پارٹی کے اس اقدام میں شدت پسندی دکھائی دے لیکن اس سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی پارٹی کا کام صرف اقتدار کا حصول ہی نہیں بلکہ اپنے لیڈروں اور کارکنوں کے رویوں اور اعمال پر نظر رکھنا بھی ہے۔ قوم کی تعمیر میں‘ سیاست دان کا کردار‘ بنیادی اور اہم ہوتا ہے۔ اسے خود توازن اور اعتدال کا نمونہ بننا چاہئے۔ قائداعظم سیاست میں روشنی کا مینار ہیں ۔ انہوں نے سٹیج پر کبھی اچھل کود نہیں کی نہ کوٹ اتار کر پھینکے ہیں‘ نہ کسی کی توہین کی ہے ان باتوں کے بغیر بھی میلہ لوٹا جاسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
رانا ثنااللہ کو کہا ہے مسجد میں آکر کلمہ پڑھے‘ ختم نبوت کا اقرار کرے تو کوئی مسئلہ نہیں: پیر حمید الدین سیالوی
سجادہ نشین سیال شریف پیر حمید الدین نے تونسہ شریف میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب رانا ثنااللہ کو کہا ہے کہ مسجد میں آکر کلمہ پڑھ کر ختم نبوت کا اقرار کرکے مسلمان ہوجائیں تو کیوں نہیں پڑھتے۔ ان کا اشارہ حالیہ آئینی ترمیم‘ ختم نبوت کے حلف نامے میں ردوبدل کے الزام کے بارے میں تھا۔
دھرنے میں شریک بعض حضرات کا گمان ہے کہ رانا صاحب بھی ترمیم کے فرنٹ پر تھے جبکہ سابق وفاقی وزیر قانون کی طرح (پنجاب کے وزیر قانون) رانا ثنا بھی اس بدگمانی کی سختی سے تردید کرچکے ہیں۔ دلوں کا حال تو اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں جو علیم بذات الصدور ہیں۔ ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ دوسرے مسلمان بھائی کے بارے میں نیک گمان رکھنا چاہئے۔ بظاہر پیر سیال شریف کی یہ شرط آسان ہے لیکن جو کلمہ کی حقیقت سمجھتے ہیں وہ تو کہتے ہیں؎
چوں می گوئم مسلمانم بہ لرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ را
(ترجمہ) جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو لرز جاتا ہوں۔ اس لئے کہ لا الہ کے تقاضوں کو سمجھتا ہوں۔ علامہ اقبال کا ہی اسی مضمون میں ایک بہت خوبصورت اور معنی خیز شعر یاد آرہا ہے؎
زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
اس شرط پر رانا صاحب کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں ہمیں معلوم نہیں لیکن بظاہر آسان نظر آنے والی یہ شرط بہت کڑی ہے۔ کہاں یہ کلمہ پڑھ کر کافر مسلمان ہوجایا کرتے تھے اور جنت کے حق دار ٹھہرتے تھے کہاں آج یہ عالم ہے کہ ہر جھوٹ کو سچ ‘ کھوٹے کو کھرا ثابت کرنے کیلئے اس کلمہ کو بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
حضرت عیسیٰ کی 500 سال پرانی‘ پینٹنگ ابوظہبی کے عجائب گھر میں رکھی جائے گی
حال ہی میں 45 کروڑ ڈالر میں نیلام ہونے والی پرانی پینٹنگ کو ابوظہبی کے لوو میوزیم میں رکھا جائے گا۔ اس پینٹنگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے خالق مونالیزا کے ناتے شہرت پانے والے معروف اطالوی آرٹسٹ لیونارڈو ڈوانچی ہیں۔ یہ اعلان فرانس کے لوو میوزیم کی ابوظہبی میں کھلنے والی شاخ نے ٹوئٹر پر کیا ہے۔
یہ پینٹنگ اپنے اطالوی نام ’’سلاوتورمندی یعنی دنیا کو بچانے والا‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ پینٹنگ کو اسی نومبر میں نیویارک میں ایک نیلام میں 45 کروڑ ڈالر کے عوض خریدا گیا تھا۔ جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا کہ دراصل اسے ایک سعودی شہزادے نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی خاطر خریدا تھا۔ البتہ اسے دنیا کے عجائب گھروں میں منفرد حیثیت حاصل کرنے والے ابوظہبی کے لوو میوزیم میں چند دن کے لئے نمائش کے لئے رکھا جائے گا۔ اس کے بعد اسے وہ اپنے ذاتی محل میں رکھیں گے۔ انہوں نے اس کا ایک حصہ نوادرات کے لئے مخصوص کر رکھا ہے۔
پینٹنگ کے نیلام کا قصہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ نیلامی میں شرکت کے خواہش مندوں میں ایک عام عرب کو دیکھ کر نیلام کنندگان کو یقین ہی نہ آیا کہ موصوف اس کی قیمت ادا کر پائیں گے۔ بڑی رد و کد کے بعد شرکت کی اجازت ملی تو پھر شہزادے کے مقابل لوگوں کے 45 کروڑ ڈالر تک پہنچتے پہنچتے ’’سانس‘‘ پھول گئے اور یوں پینٹنگ اس قدر دان کے نام ہوئی جسے ابتدا میں شائقین میں کھڑے ہونے کی اجازت دینے سے بھی ہچکچایا جا رہا تھا۔ جب سے امارات کے نوجوان شیوخ اور سعودی عرب کے امیر نوجوانوں اور بالخصوص ولی عہد شہزادہ محمد بن سلطان نے جدیدیت کی طرف رجحان ظاہر کیا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مغرب کے تمام نوادرات آہستہ آہستہ سعودی ایوانوں اور امارات کے عجائب گھروں میں منتقل ہو جائیں گے۔
٭٭٭٭٭٭