بدھ ‘22 ذی الحج‘ 1436ھ ‘ 7 اکتوبر 2015ئ
اسلام آباد کے گھیراﺅ سے پہلے حکمران کسانوں کے مطالبات مانیں، شوگر ملیں واجبات دیں، سراج الحق
ایک دور تھا جب جماعت اسلامی کا طوطی بولتا تھا۔ سکولز اور کالجز سے لیکر اسلام آباد تک ہر کوئی ان سے ڈرتا تھا۔ مزدوروں سے لیکر سیاسی لوگوں تک ہر کسی کی زبان پر ہوتا تھا.... ظالمو! قاضی آ رہاہے لیکن پھر درمیانی عرصہ میں جماعت صرف منصورہ تک محدود ہو کر رہ گئی تھی تاہم اب جماعت اسلامی کے کارکنان خود ہی کہتے ہیں۔ ظالمو! ماضی آ رہاہے۔ جناب اپنے ماضی سے مت ڈرائیں۔ کسی خوشحال مستقبل کی نوید بھی سنائیں۔ سراج الحق جماعت کو دھرنا اور جلاﺅ گھیراﺅ والی سیاست سے نکال کر ”صراط مستقیم“ پر گامزن کریں تو ملک و قوم کے لئے بہتر رہے گا۔
سراج الحق نے کسان راج تحریک سے خطاب کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اسلام آباد کے گھیراﺅ سے پہلے کسانوں کے مطالبات تسلیم کر لیں۔ جناب حکومت نے تو پہلے ہی کسان پیکج کا اعلان کر دیا تھا لیکن آپ کے اتحادی عمران خان نے اس کے سامنے بند باندھ دیا، اب سبھی واویلا کیوں کر رہے ہیں۔ کسان جب ایک جماعت سے مایوس ہوتے ہیں تو دوسری طرف چھلانگ لگاتے ہوئے گویا ہوتے ہیں....
ہاں ساقیا وہ جام حقیقت شتاب دے
پھر تازہ دم بنائے قوا جب جواب دے
کسان تازہ دم دستوں کو تلاش کر کے اس کے کندھوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ کبھی عمران خان کے ساتھ جپھیاں اور کبھی نواز شریف کی مدح سرائیاں۔ جب کہیں دال نہ گلے تو سراج الحق کے ساتھ معانقے پر اکتفا کر کے مطالبات سامنے رکھ دیتے ہیں۔ سراج الحق تو یوں ہی کہیں گے جینا ہو گا، مرنا ہو گا، دھرنا ہو گا دھرنا ہو گا۔
٭....٭....٭....٭
اساتذہ کا دن خاموشی سے گزر گیا سرکاری سطح پر کوئی تقریب نہیں ہوئی
اساتذہ کسی بھی معاشرے میں عزت و احترام کی علامت ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں اساتذہ کو اس قدر احترام دیا جاتا ہے کہ انسان عش عش کر اٹھتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں طلباءاساتذہ کےخلاف جلوس نکالتے ہیں۔
اب تو محکمہ تعلیم بھی اساتذہ کیخلاف کمر بستہ ہو چکا ہے۔ استاد اگر چند منٹ سکول سے لیٹ ہو جائے تو اسے سزا دی جاتی ہے۔ ترقی روک کر اذیت پہنچائی جاتی ہے حالانکہ اساتذہ کی مراعات میں اب کافی اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود ایک استاد نے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لیکر کہا....
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
جس معاشرے میں وزیر تعلیم رانا مشہود ہوں جو ویڈیو میں واضح طور پر ڈیل کرتے نظر آئیں۔ اس معاشرے کی تعلیم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ بڑے بڑے اکابرین کی زندگیوں کا اگر مطالعہ کریں آپ کو ان کے علم کی وجہ اساتذہ کا احترام اور عزت نظر آئے گی۔ لیکن ہم بڑے بدقسمت لوگ ہیں جو ضعیف ماں باپ کو اولڈ ہوم چھوڑ کر ان کا صرف عید کی عید پوچھتے ہیں ایسے ہی اساتذہ کو صرف ان کے دن پر یاد کر کے احترام کرنے والے کہلواتے ہیں لیکن اس بار تو کمال ہو گیا سرکاری سطح پر اساتذہ کےلئے کوئی تقریب ہوئی نہ ہی کسی نے اساتذہ کو پھول پیش کئے۔ اقبال نے کہا تھا....ع
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اس مٹی کو نم صرف اساتذہ کرتے ہیں جس کمہار مٹی کو سانچے میں ڈھال کر کارآمد بناتے ہیں۔ ایسے ہی اساتذہ مٹی کے چھ فٹ انسان کو علمی سانچے میں ڈھالتے ہیں۔ لیکن ہماری نوجوان نسل ایسی بدقسمت ہے جو ہر روز سانچے کو توڑنے پر تلی رہتی ہے۔
٭....٭....٭....٭
حکومتی امداد کے اعلانات پر عمل نہیں ہوا: شاکر شجاع آبادی
سرائیکی زبان کے نامور شاعر بالآخر اپنا دکھڑا زبان پر لے ہی آئے۔ حکومت نے شاکر کو کافی تسلیاں دیں کہ علاج کروائیں گے اور مدد بھی کرینگے لیکن کچھ بھی نہیں کیا۔ اب شاکر نے دل برداشتہ ہو کر ایک شعر کہا ہے....
خیرات نہ ڈے پہچا نڑتاں کرتیڈے درتے کون فقیر اے
گھر بیٹھے چن انکار نہ کراساں منگڑیں نہیں جاگیر اے
مینڈے مرنڑتوں گواہی ڈیسی تیڈے ہتھ دی پاک لکیر اے
بوہا کھول کے ڈیھکہ میں شاکر ہاں جیکوں رول ڈتا تقدیر اے
گورنر پنجاب‘ وزیر اعلیٰ پنجاب‘ وزیراعظم پاکستان تک سے شعرا کے نام پر فنڈز اکٹھے کرنے والے ادیبوں نے شاکر کو صرف ”شکر“ پر ٹرخایا۔ اس سے بڑھ کر حکومت کی بے حسی اور کیا ہو سکتی ہے۔ جوحکومت مرتے ہوئے شاعر کے منہ میں دو قطرے پانی نہیں ڈال سکتی وہ اس کی قبر پر ہزار روپے کے پھول ڈال کر کون سا احسان کرنا چاہتی ہے۔ ملتان کے گیلانی بھی وزیراعظم رہے لیکن شاکر نے کوئی ڈیمانڈ نہیں کی۔ قریشی سے لیکر جہانگیر ترین تک کسی کو بھی کوئی خیال نہیں آیا۔
بیت المال کے وزیر ہارون سلطان بخاری ہی ذرا نظر کرم کریں تاکہ شاکر آخری عمر میں چند سانس آسانی سے لے سکیں۔
میاں نواز شریف صاحب زرداری صاحب کے وعدے ایفا نہ کرنے پر تو تلملا اٹھے تھے اور ہر لیگی رہنما نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اب آپ بھی یاد رکھیں وعدے قران و حدیث ہوتے ہیں انکے بارے آپ سے پوچھا جائے گا لہٰذا ابھی وقت ہے۔