منگل ‘21 ؍ ذی الحج‘ 1436ھ ‘ 6 ؍ اکتوبر 2015ء
اسلام آباد میں جنرل راحیل کے نام سے پہلی مسجد اور مدرسہ دارالامن قائم۔
آسمان پر پہنچا کر سیڑھی کھینچنے کی عادت پاکستانیوں کی پرانی ہے۔ اس انداز سے کسی جرنیل کی پذیرائی تو نہیں دیکھی۔ اچانک عوام کو کیا ہو گیا۔ عوام کو دہشت گردوں سے جس طرح راحیل شریف نے محفوظ بنایا ہے وہ واقعی قابل تعریف ہے۔ اس لئے عوام آج انکے نام پر مسجدیں بنا رہے ہیں شاعر نے کہا تھا…؎
ذرا دم تو لینے دے اے چشم جادو
بڑی مدتوں سے دل اچھا ہوا ہے
جنرل کیانی کے بارے شنید ہے کہ انہوں نے راولپنڈی گالف کلب میں صرف ’’ہٹ‘‘ ہی تعمیر کروائی یا پھر اپنے برادران کو ٹھیکے لیکر کر دئیے۔ اگر موصوف بھی دہشت گردوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں نانی یاد کرواتے تو آج ایوب خان کی جگہ ٹرکوں پر ان کی تصویر آویزاں ہوتی لیکن اب ٹرکوں پر راحیل شریف کی تصویر نظر آ رہی ہے۔
مسجد کے ساتھ ہی ایک مدرسہ قائم کیا گیا ہے جس کا نام مدرسہ جامعہ دارالامن رکھا گیا ہے۔ نام سے تو یوں لگتا ہے کہ یہاں سے امن کی شعاعیں جنم لیں گی۔ ویسے خوشامد کی کوئی حد ہوتی ہے۔ اگر کسی نے خوشامد کرنا سیکھنی ہو تو وہ پاکستانیوں سے سیکھے۔
پاکستانیوں نے جنرل ضیاء کو بھی ایسے ہی کندھوں پر اٹھایا تھا لیکن دونوں کی سوچ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ امید ہے عوام کو روشن مستقبل جلد دیکھنے کو ملے گا۔
٭…٭…٭…٭
آصف زرداری نے دبئی میں اپنا مستقل آفس قائم کر لیا۔
سٹیل ملز کا سودا ہوتا دیکھ کر زرداری صاحب لڈیاں ڈال رہے ہوں گے کہ سونے کی چڑیا ہاتھ لگنے والی ہے۔ زرداری صاحب نے تو دبئی میں اب اپنا ایک مستقل سیاسی آفس بھی اس لئے کھول لیا ہے کہ یہیں بیٹھ کر سب کچھ حاصل کیا جائے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اب الطاف بھائی کی طرح ریموٹ کنٹرول سے مردہ پی پی کو چلائیں گے۔ پی پی والوں کو مبارک ہو کہ انہیں بھی جلاوطن قائد مل گیا ہے۔ پیپلز پارٹی میدان سے بھاگنے والی نہیں تھی لیکن زرداری صاحب نے اس کی ساکھ ڈبو دی ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنان تو اب بھی یوں گویا ہوتے ہیںکہ …؎
چمن کا رنگ تو نے سراسر اے خزاں بدلا
نہ ہم نے شاخ گل چھوڑی نہ ہم نے آشیاں بدلا
لیکن جب قیادت ہی میدان چھوڑ کر بھاگ جائے تو پھر بیچارے کارکنان کیا کریں گے۔ جھولی میں گرتے قومی اثاثے دیکھ کر سندھ حکومت کی ’’رال‘‘ ٹپک رہی ہے۔ وفاق ہوشیار رہے کیونکہ مشتری بڑا چالاک ہے۔
٭…٭…٭…٭
چیئرمین کے امیدوار کو ریٹرننگ افسر نے مردہ قرار دیدیا
عجب سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ زندوں کو مردہ جبکہ مردوں کو زندہ قرار دیکر لوگوں کو دردر پر دستک دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ سرگودھا سے سلیم جب کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے پہنچے تو انہیں کہا گیا خبردار! آپ تو مر چکے ہیں اور مردے الیکشن نہیں لڑا کرتے۔
اب امیدوار بچارہ دیواروں سے سر پیٹے یا نادرا کے دفتروں کا طواف کرے۔ اس غریب کی کون سنے گا۔ ویسے اگر کسی جیتے جاگتے انسان کو اچانک یہ پتہ چلے کہ آپ تو مر چکے ہیں تو اس پر کیا بیتے گی۔ ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ انسان کو سچ ثابت کرنے کیلئے اپنی جان و مال دائو پر لگانا پڑتا ہے لیکن اسکے باوجود اگر انسان کو اس کا حق نہ ملے تو وہ کیا کرے۔
اگر چودھری نثار اگر اس کا نوٹس نہ لیتے تو سلیم کو اپنا سب کچھ بیچ کر ریکارڈ درست کرانا پڑتا تھا۔ چودھری نثار کے نوٹس پر تو یہی کہا جا سکتا ہے…؎
اس کو کہتے ہیں اچانک ہوش میں آنے کا نام
رکھ دیا دانش کدہ، رندوں نے میخانے کا نام
نادرا حکام کو جوش کی بجائے ہوش سے کام لینا چاہئے تاکہ لوگ رسوا ہونے سے بچ سکیں۔
٭…٭…٭…٭
گائے ایک جانور ہے، کسی کی ماں نہیں ہو سکتی: سابق جج بھارتی سپریم کورٹ
گائے کے ذبیحہ پر تو گزشتہ روز بھی مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں ہنگامہ آرائی ہوئی۔ ممبران اسمبلی دست و گریباں تک ہوئے لیکن ہندو لابی نے اپنا زور دکھا کر سب کو چپ کروانے کی کوشش کی۔
اب تو گھر سے گواہی آ گئی ہے کہ گائے کسی شخص کی ماں نہیں ہو سکتی۔ جناب جب گائے ماں نہیں ہو سکتی تو پھر اسے ذبح کر کے کھانا بھی شروع کر دیں اور مسلمانوں کو بھی کھانے دیں۔ مسلمان اگر گائے کا گوشت کھاتے ہیں تو انہیں زدوکوب کیا جاتا ہے۔
ابھی حال ہی میں عید قربان پر بھارت میں ایک شخص کو اس بات پر زدوکوب کر کے مار دیا گیا کہ اسکے فریزر میں گائے کا گوشت رکھا ہوا تھا۔ اب بھارتی عوام اس جج کو کیا کہیں گے جس نے ان کی ’’ماں‘‘ کی ہی نفی کر دی ہے۔
بھارتی ہندوئوں کو اب ’’ماں‘‘ کی تبدیلی کیلئے کچھ سوچ لینا چاہئے۔ اگر وہ حقیقت میں اسے تبدیل کر لیتے ہیں تو بھارت میں آدھے سے زیادہ فساد ختم ہو جائیں گے۔