ہفتہ‘ 16؍ رمضان المبارک ‘ 1436ھ ‘ 4؍ جولائی 2015ء
پنجاب میرا سسرال ہے، جلد یہاں آ کر بیٹھوں گی: ریحام خان
پنجاب میں ڈیرے ڈالنے سے کسی نے نہیں روکا پنجاب بڑا بھائی ہے، فراخ دل ہے، ہر کسی کو سینے سے لگاتا ہے۔ ریحام خان تشریف لائیں اہل پنجاب انہیں ویلکم کہیں گے۔ اگر انہوں نے پنجاب کو اپنا سسرال بنا ہی لیا ہے تو پھر خوش آمدید۔ جی آیاں نوں، آپ جلدی آئیں۔ بلاول بھٹو بھی پنجاب آنے کا بار بار اعلان کرتے ہیں، لیکن ابھی تک آ نہیں پائے۔ نہ جانے انہیں کس نے روک رکھا ہے۔ بھائی لوگوں نے بھی یہاں قدم جمانے کی کوشش کی بلکہ پنجاب سے ایک سنیٹر بھی کراچی کی سیٹ پر منتخب کروایا تاکہ انکے تعلقات پنجاب سے مضبوط ہو سکیں۔ پنجاب نے انہیں بھی سینے سے لگایا۔ احسان اللہ ثاقب مرحوم نے کہا تھا…؎
تیرے آنے سے کچھ نہ بدلے گا
روز نکلیں گے چاند اور سورج
بڑے بڑے لوگ یہاں آئے اور گئے لیکن کسی کو پنجاب نے دکھ نہیں دیا بلکہ اقتدار ہی دیا۔ بھٹو کو پنجاب نے سر آنکھوں پر بٹھایا اور انہیں ایوان اقتدار میں پہنچایا لیکن پھر بھٹو نے وہی کیا جو دشمن کا مطمع ٔ نظر تھا۔ پاکستان دو لخت ہو گیا۔ پنجاب کی دھرتی پر قدم رکھنے والوں نے قوت حاصل ہونے کے بعد اسے ہی تقسیم کرنے کی سازش کی۔ پیپلز پارٹی نے بھی جنوبی پنجاب الگ کرنے کا بھونڈا نعرہ لگایا لیکن آج بھی پنجاب سینہ تانے کھڑا ہے اور پیپلز پارٹی خزاں کے پتوں کی طرح بکھر گئی ہے۔
…٭…٭…٭…٭…
پی پی کے لوگ عمران کے پاس جا کر کیسے شفاف ہو جائینگے: راجہ پرویز اشرف
سیاستدانوں نے یہ اچھا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔ پہلے پانچ سال ایک پارٹی میں رہ کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں۔ جیسے ہی وہ پارٹی لوٹ مار اور کرپشن کے باعث زوال کا شکار ہوئی تو یہ موسمی پرندوں کی طرح اڑ کر اپنا ٹھکانہ بدل لیتے ہیں ایسے ہی سیاستدانوں کے بارے پنجابی شاعر نے کہا تھا…؎
ساری عمر چلاکیاں وچ گزری
تقوی رکھیا ہیریاں پھیریاں تے
بھلا ملدی کویں مراد سرور
امب لگے نہیں کدے وی بیریاں تے
جو اپنے گھر میں دو نمبر ہیں۔ وہ دوسرے کے گھر جا کر کیسے ایماندار بن جائینگے۔ گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھا دی ہے۔ راجہ پرویز اشرف کہتے ہیں پی پی کے لوگ عمران کے پاس جا کر کیسے شفاف ہو جائینگے۔ اس کا مطلب کہ گھر والوں کو بھی علم ہے کہ یہ کرپٹ ہیں۔ سابق وفاقی وزیر نذر گوندل کے بھائی ظفر اقبال گوندل نے ای او بی آئی کے کروڑوں روپے ہڑپ کئے اب اگر نذر گوندل اسی بناء پر تحریک انصاف میں جاتے ہیں کہ پی پی پی میرے بھائی کو بچانے کیلئے تعاون نہیں کر رہی تو پی ٹی آئی تبدیلی کیسے لائے گی۔ راجہ جانی نے بھی یہی بات کی ہے۔ اگر راجہ صاحب بھی بنی گالہ چلے جاتے ہیں تو پھر بھی لوگ انہیں راجہ رینٹیل کے نام سے ہی یاد کرینگے۔ لہذا عمران خان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے چاہیں کیونکہ ہر جگہ گندم کے ساتھ گیہوں نہیں پیسا جاتا۔
…٭…٭…٭…٭…
موجودہ حکومت کی شہرت کسی سکینڈل سے مجروح نہیں ہوئی، صدر مملکت
جناب صدر آپ اس حکومت پر اس لئے ممنون ہو رہے ہیں کہ انہوں نے آپ کو صدر کے منصب پر بٹھایا۔ حالانکہ آپ کسی بھی ادارے کی ایک اینٹ اٹھائیں تو آپ کو وہاں کرپشن نظر آئیگی۔ منصوبے ہوا میں بنا کر پیسے اپنے اکائونٹ میں رکھ لئے جاتے ہیں۔ نندی پور پاور پراجیکٹ اس حکومت کا بڑا سکینڈل ہے۔ جس کے نام پر مبینہ طور پر خزانے سے پیسے لوٹے گئے اور بجلی ابھی تک نہیں مل پا رہی۔ صدر صاحب صرف یہ رائے قائم کر سکتے ہیں کہ جناب دھی بھلے کرارے اور مزے دار ہوتے ہیں۔ کیونکہ سیاست بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ شریف آدمی صدر تو بن سکتا ہے لیکن سیاستدان نہیں کیونکہ پاکستان میں سیاست کرنا بڑے جگرے کی بات ہے اس لئے صدر محترم اگر خاموش ہی رہیں تو بہتر ہو گا۔ کیا جناب آپ سندھ اور بلوچستان کو پاکستان کا حصہ تصور نہیں کرتے، وہاں تو کرپشن اور سکینڈلز کی نہریں بہہ رہی ہیں اور وفا دار لوگ اس میں غوطہ زن ہو کر پیسوں کی بوریاں بھر رہے ہیں اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ…؎
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
اس لئے بطور وفاق کی علامت کے آپ غیر جانبدار اور خاموش ہی رہیں تو بہتر ہو گا۔
…٭…٭…٭…٭…
خیبر پی کے اسمبلی کا نام اطلاعات تک رسائی کے بل سے خارج کر دیا گیا۔
ایک طرف خیبر پی کے میں انقلاب کا اور تبدیلی کے نعرے گونج رہے ہیں دوسری طرف عوام کو ہر ادارے کی کارکردگی کے بارے میں جاننے اور محکمانہ معلومات تک عوام کی رسائی کا بل صوبائی اسمبلی میں منظوری کیلئے پیش ہوا تو ارکان اسمبلی کے ہوش اڑگئے اور انہوں نے جھٹ سے اس بل میں ترمیم کر ڈالی اور اپنی اسمبلی کا نام نکلوا کر دم لیا تاکہ کوئی یہاں کے اندرونی حالات اور معلومات سے آگاہ نہ ہو سکے۔معلومات تک رسائی عوام کا حق ہے مگر یہ ارکان اسمبلی انہیں یہ حق دینے سے صرف اس لئے ڈرتے ہیں کہ کہیں انکا کچا چٹھا کھل کر سامنے نہ آ جائے کیونکہ ہمارے ارکان اسمبلی کی اکثریت یہ تک نہیں جانتی کہ ان کا اسمبلی میں کام کیا ہے۔اجلاس میں اول تو شرکت ہی کم کرتے ہیں، آئیں تو سوئے یا اونگھتے رہتے ہیں یا خوش گپیاں لگاتے ہیں۔ زیادہ زور ہوا تو اپنے لیڈر کی تقریر پر ڈیسک یا تالیاں بجاتے ہیں ورنہ اکثر ارکان اسمبلی کی ساری تگ و دو صرف تنخواہ کا حصول اور جھنڈے والی گاڑی کے پروٹوکول تک ہی محدود ہوتی ہے اور عوام کی تمام تر توجہ ان ارکان اسمبلی سے نوکری، سفارش، پانی اور بجلی لگوانے تک ہوتی ہے۔ کیا پتہ کہ عوام کو ان ارکان کا اصل کام کیا ہے۔