منگل‘ 25 ؍ رجب المرجب 1437ھ‘ 3مئی‘ 2016ء
قندیل بلوچ عمران سے ملاقات نہ ہونے پر رو پڑیں۔
عمران خان کی محبت میں قندیل بلوچ کل موسم گرما کی شدت سے بے نیاز ہو کر کراچی سے لاہور آئیں اورگھنٹوں عوام کے بے تحاشہ ہجوم میں گرمی سے برا حال ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے جلسے میں مال روڈ پہنچیں۔ انہیں امید تھی کہ وہ عمران خان سے ملاقات کر لیں گی۔ مگر ’’اے بسا آرزو کہ خاک شد‘‘ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ہوا۔ اب یہ حال ہے کہ قندیل بلوچ سوجھی ہوئی آنکھوں کے ساتھ:۔
زندہ رہنے کے لیے تیری قسم
اک ملاقات ضروری ہے صنم
والا گیت گنگناتی نظر آتی ہیں۔
ویسے یہ سکیورٹی والے ہیں ہی بہت ظالم۔ ایک حسین اداکارہ پر بھی انہیں ترس نہیں آیا اور اسکے منزل مقصود تک پہنچنے میں رکاوٹ بنے رہے ورنہ ہمارے ہاں تو ذرا ادھر کسی چشم نازنین میں آنسو آ جائیں۔ لوگ دل و جاں قربان کرنے کو تیار نظر آتے ہیں۔یہ تو بودی دلیل ہے کہ قندیل کے پاس ملاقات کا پاس نہیں تھا۔ کیا اب کارکنوں کو اپنے لیڈر، اپنے محبوب قائد سے ملاقات کے لیے پاس بنوانے پڑیں گے۔ افسوس یہ برا وقت بھی کوچہ سیاست میں آنا تھا ۔ کیا وقت تھا جب قائدین اپنے کارکنوں کو خود اپنے پاس بلاتے تھے۔ بھٹو بننے کی کوشش کرنے والے عمران خان بھی پہلے بھٹو جیسے انداز و اطوار تو اپنائیں۔ بھٹو مرحوم کو تو اپنے کارکنوں کے نام زبانی ازبر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کارکن آج بھی انہیں نہیں بھولے۔
٭٭٭٭٭٭٭
وزیر اعظم کا دورہ بلوچستان۔ متعدد منصوبوں کا افتتاح کیا۔
بلوچستان میں وفاقی حکومت جس طرح عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کا افتتاح کر رہی ہے وہ خوش آئند ہے عرصہ دراز بعد بلوچستان میں امن آشتی کا دور بحال ہو رہا ہے۔ ان حالات میں گزشتہ روز وزیر اعظم نے کوئٹہ میں قدم رنجہ فرمایا۔ اس موقع پر سکیورٹی کی صورتحال سے پیدا ہونے والی پریشانیوں کا گلہ تو عبث ہے۔ ہاں البتہ…
گلہ اس کا کیا جس سے تجھ پہ حرف آیا
وگرنہ یوں تو ستم ہم پہ بے شمار ہوئے
اگر اتنی سکیورٹی اور حفاظتی تدابیر اختیار کرکے بھی ان منصوبہ کا افتتاح گورنر ہائوس میں ہی کرنا تھا تو پھر یہ دورے کا تکلف کیوں کیا گیا۔ وزیراعظم اگر سابق صدر مشرف اور پیپلز پارٹی کے ادوار کی درخشاں روایات پر عمل کرتے تو یہ کام اسلام آباد کے آرام دہ نرم اور ٹھنڈے ایوان وزیراعظم کے کسی بھی پرسکون ہال یا گوشے میں کر سکتے تھے ۔میاں صاحب نے یہ اسلام آباد سے کوئٹہ آنے جانے کا ناحق تکلف کیوں کیا۔ آنے جانے کے اخراجات بچا لیتے تو حکومت کے بچت پروگرام میں مزید لاکھوں روپے شامل ہوجاتے۔ وزیراعظم کو انکے چاہنے والے شیر کہتے ہیں تو انہیں شیر بن کر دکھانا چاہیے تھا۔ اتنی سکیورٹی میں تو وہ نوشکی، خضدار یا لورالائی جا کر بھی ان منصوبوں کا افتتاح کر سکتے تھے۔ عوام سے گھلتے ملتے تو دیکھتے کہ عوام کتنا خوش ہوتے ہیں اور انہیں کتنا پیار دیتے ہیں۔ کبھی کبھی انہیں بھی خوش ہونے کا موقع دیا جائے۔
جرمنی دائیں بازو کی پارٹی کے منشور میں مسجدوں کے مینار اور مسلم خواتین کے حجاب پر پابندی کا مطالبہ
ایک طرف تو پورے یورپ میں اظہار رائے کی آزادی انسانی حقوق کی آزادی اور مذہبی آزادی کے دلفریب نعرے پورے زور و شور سے سنائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف اندرون خانہ یہ حال ہے کہ وہاںکے لبرل اور آزاد معاشرے میں انتہا پسند دائیں بازو کی جماعتیں مسلمانوں کے خالصتاً نجی معاملات میں بھی مداخلت سے باز نہیں آتیں۔ کوئی خاتون سرڈھانک کر باہر نکلے یا برہنہ سر یہ سراسر اس کا ذاتی معاملہ ہے اس لیے پورے یورپ میں انگریز خواتین کے سکارف پہنے کی پابندی نہیں۔ مذہبی راہبائوں (ننوں) نے تو باقاعدہ اسلامی حجاب نما سکارف سر پر باندھا ہوتا ہے۔ جب انہیں مذہبی طور پر اس کا حق ہے اور اس پر بائیں یا دائیں بازو والوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی تو مسلم خاتون اگر سرڈھانپے تو کونسی قیامت آ جاتی ہے۔ رہی بات مساجد کے میناروں پر پابندی کی تو بھلا آج تک کسی نے سڑکوں، بازاروں، پارکوں میں بنے رنگ برنگے قائم شدہ میناروں پر اعتراض کیا ہے؟ نہیں کیا تو ہو بھلا ایک عام سادہ سے مسجد کے مینار پر اعتراض کیوں یہ تو مسجد کے تقدس کا حصہ ہے۔ یہ کسی کو خوفناک کیوں نظر آنے لگا مغرب کی دائیں بازو کی جماعتیں کیوں اسکے پیچھے پڑ گئی ہیں آخر گرجائوں کے اندر بھی تو مینار بنائے جاتے ہیں۔ مسجد کے مینار سے اذان کی آواز آتی ہے اور گرجوں کے مینار سے گھنٹیاں بجتی سنائی دیتی ہیں۔ مقصد دونوں کا عبادت کی طرف بلاوا ہی تو ہے پھر ایک سے محبت اور ایک سے نفرت چہ معنی دارد؟
٭٭٭٭٭٭٭
بلاول کا حکومت کیخلاف محاذ مزید گرم کرنے کا فیصلہ
عرصہ دراز بعد پیپلز پارٹی کے تن مردہ میں جان ڈالنے کیلئے خفیہ ہاتھ بالآخر بلاول زرداری کو میدان میں لے ہی آئے اب پیپلز پارٹی کے بچے کھچے ارکان ایک بار پھر پوری توانائی سے : ’’بلاول آ گیا میدان وچہ ہے جمالو‘‘
کی لے پر رقص کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ دیکھنا ہے اب اس ہے جمالو کی تھاپ سے بقول بلاول ’’رائے ونڈ کا تخت لرزتا ہے‘‘ یا خود سندھ کے ایوانوں میں زلزلہ آتا ہے کیونکہ پانامہ لیکس اب بیرون ملک میں چھپائی گئی دولت واپس لانے کا نام بن گیا ہے۔ یعنی جس جس کی دولت بھی باہر ہے جائز یا ناجائز طریقے سے۔ جائیداد کی شکل میں، زیورات کی یا کاروبار کی مشکل میں وہ پاکستان واپس لائے ۔ اب بلاول جس طرح عمران کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں وہ کہیں ان کو ہی مہنگی نہ پڑ جائے کیونکہ بیرون ملک مال دبا کر رکھنے والوں میں آصف زرداری، بے نظیر، خورشید شاہ، جہانگیر ترین، علیم خان، حسن نواز، حسین نواز سمیت 400 کے قریب عزت مآب سیاستدانوں بیورو کریٹس و دیگر حاضر سروس و ریٹائرڈ اصحاب کے ناموں کے ڈنکے بچ رہے ہیں۔ اب کہیں خود پیپلز پارٹی کے ارب پتی رہنما ہی اپنے نئے نویلے قائد کی اس حرکت پر روتے پیٹتے دبئی میں دربار زرداری میں التجائیں کرتے نہ نظر آئیں کہ سائیں یہ کس کو ہمارے سر پر بٹھا دیا…
٭٭٭٭٭٭٭