شاہد آفریدی کا اپنی 35ویں سالگرہ پر قوم کو ’’انڈے‘‘ کا تحفہ۔ معاف کیجئے گا یہ انڈا انہوں نے نہیں دیا بلکہ یہ تحفہ برسبین میں زمبابوے جیسی تمام میچ ہاری ہوئی ٹیم کے خلاف کھیلتے ہوئے انکی طرف سے پاکستان کے حصے میں آیا۔
اس لحاظ سے تو اسے یادگار تحفہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ ہماری ٹیم نے یہ میچ جیت لیا اور پوری شکست خوردہ قوم نے اس فتح پر بھی خوب جشن منایا اور ہلا گلا کیا۔ ورنہ ورلڈ کپ کا ’’بھریا میلہ‘‘ چھوڑ کر پوری ٹیم کو واپس وطن کی راہ لینی پڑتی اور اسکے بعد یہاں ہمارے انٹرنیشنل ائرپورٹس پر کرکٹ شائقین کا جم غفیر ہاتھوں میں انڈے لئے (کچھ منچلے تو ٹماٹر اور پرانے پاپوش بھی لا سکتے تھے) ٹیم کا استقبال کرنے آتے اور ہر برقعہ پوش خاتون کا نقاب اٹھا کر اپنے محبوب کھلاڑیوں کے رخ زیبا کو تلاش کرتے۔ چاہے جواب میں انہیں برقعہ پوش خواتین اور ان کے اہلخانہ سے جھاڑیں ہی کیوں نہ سننا پڑتیں۔ اور اگر کوئی کھلاڑی شومئی قسمت سے ہاتھ لگ جاتا تو اس کا برسر ائرپورٹ انڈوں اور ٹماٹروں سے ایسا والہانہ استقبال کیا جاتا کہ وہ دوبارہ انکی طرف دیکھنا تو درکنار ان کا نام سننا بھی پسند نہ کرتا۔
یہ تو معین خان کی بھی قسمت اچھی تھی کہ وہ ائرپورٹ کے پچھلے دروازے سے خیروخوبی کے ساتھ نکل گئے ورنہ ائرپورٹ کے باہر ان کے فین ان کیلئے بھی انڈے اٹھائے… ؎
تیری راہوں میں کھڑے ہیں دل تھام کے
ہم ہیں دیوانے تیرے نام کے
کا راگ الاپتے ہوئے ان کے منتظر تھے۔ اگر وہ ہتھے چڑھ جاتے تو یہ ان کے فین انہیں انڈوں اور ٹماٹروں سے نہلا دیتے مگر شکر ہے معین بھی بچ گئے اور ٹیم بھی محفوظ رہی۔
٭…٭…٭…٭
آصف زرداری کا مولانا فضل الرحمان کو ظہرانہ۔ سالم بکرا، مچھلی کے پکوان، بٹیر اور نمکین سجی کے علاوہ چال اور سوپ بھی تھا۔ اب یہ کھانوں کی فہرست پڑھ پڑھ کر ہی ہمارے جیسے نجانے کتنوں کے منہ میں پانی بھر آیا ہے۔ کئی کی تو رال ٹپکنے لگی ہو گی۔
مگر کیا کریں کہ یہ انواع اقسام کے قیمتی اور لذیذ کھانے اب پاکستانیوں کے حافظے میں صرف یادداشت کے طور پر محفوظ رہ گئے ہیں۔ زبان و دہن ان کے ذائقے سے مہنگائی کی بدولت کب کے محروم ہو چکے ہیں۔
یہ تو مولانا کی قدر و قیمت ہے کہ ان پر ’’خاناں دے خان پروہنے‘‘ والی بات فٹ بیٹھتی ہے اور وہ جہاں بھی جائیں انہیں میاں نواز شریف اور آصف زرداری جیسے میزبان ملتے ہیں جو انکی خاطر تواضع میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اب دیکھ لیں زرداری صاحب نے صرف مولانا کیلئے سالم بکرا، سجی، مچھلی، بٹیرے، چاول اور سوپ کا دستر خوان سجایا۔ مولانا صاحب کو دیکھ کر چلیں مان لیتے ہیں کہ وہ خاصے تن ونوش کے مالک ہیں اس لئے وہ خوش خوراک بھی کافی ہوں گے لیکن زرداری صاحب تو سلم سمارٹ ہیں انہیں کھانے کا اتنا شوق نہیں اگر ہے بھی تو وہ دستر خواں پر اپنا پیٹ بھرنے سے زیادہ اپنے اکائونٹس کا پیٹ اور اپنی جیب بھرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور اس کام میں شاید مولانا بھی کچھ پیچھے نہیں اس لئے کسی نے خوب کہا تھا… ’’مایا کو ملے مایا کر کر لمبے ہاتھ‘‘ اب یہی کہانی ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہے۔ اس بار سارا قصہ سینٹ کی اوپن ووٹنگ کا ہے جس پر مسلم لیگ بادل نخواستہ اور عمران خان بخوشی تیار ہیں مگر جے یو آئی اور پیپلز پارٹی باہمی صدمے کے باعث دل گیر و بغل گیر ہیں اور اس کو روکنے کی راہ تلاش کر رہی ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں وہ سینٹ کی کئی سیٹیں حاصل کرنے سے محروم ہو سکتی ہیں۔
٭…٭…٭…٭
پنجاب اسمبلی کے باہر نابینائوں کا ملازمتوں کے کوٹے میں اضافہ کیلئے احتجاجی دھرنا !
اس جدید ترقی یافتہ دور میں جب ساری دنیا میں ’’خصوصی لوگوں‘‘ کو ہرممکن مراعات دی جا رہی ہیں۔ ہمارے ملک عزیز میں بصارت سے محروم افراد کے حقوق پر آج بھی ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ اور یہ کام صاحبان بصیرت وبصارت کر رہے ہیں۔
حکومت کی طرف سے ملازمتوں میں بصارت سے محروم ان افراد کیلئے معمولی سا صرف 2 فیصد خصوصی کوٹہ مقرر ہے۔ مگر وہ کیا انہیں ملتا ہے؟ اسکے جواب میں اپنا حق طلب کرنے پر ان خصوصی افراد کو سڑکوں پر دھکے اور کوسنے مل رہے ہیں۔ آج پھر یہ چند سر پھرے نوجوان حکومتی بے حسی کیخلاف گورنر ہائوس لاہور کے باہر اپنا سابقہ حشر بھول کر قسمت آزمانے اسمبلی ہال تک جانے کیلئے نکل پڑے۔ موسم بھی برسات جیسا سہانا تھا۔ رم جھم ہو رہی تھی، اس موسم میں بھی پولیس والوں کو ترس نہیں آیا اور انہیں بزور طاقت چیئرنگ کراس پر ہی روک کر اسمبلی تک جانے نہ دیا تو ان سرفروشوں نے وہاں ہی دھرنا دے دیا۔ بصیرت والے ان بے بصارت اور بصارت والے ہم جیسے بے بصیرتوں کے درمیان یہ خوبصورت معرکہ دیکھ کر ان باہمت نوجوانوں کے جذبوں کی داد دینا پڑتی ہے جو…؎
اپنی آشفتہ مزاجی پہ ہنسی آتی ہے
دشمنی سنگ سے اور کانچ کا پیکر رکھنا
والی بات کا ادراک ہونے کے باوجود چٹانوں کے ساتھ سر ٹکرانے کا حوصلہ لے کر نکلے تھے اور بالآخر انکے جذبوں کی گونج نے ایوان حکومت کو ہلا کر رکھ دیا اور حکومتی رکن اسمبلی زعیم قادری نے انکے دھرنے میں آ کر انکے مطالبہ پر ان کا کوٹہ 2 فیصد سے بڑھا کر 3 فیصد کرنے کا اعلان کر دیا۔ مگر ان کا یہ اعلان رائیگاں گیا اور رات گئے تک حکومت اور خصوصی افراد میں مذاکرات کے کئی دور ہوئے مگر کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔