منگل ‘ 6 ذوالقعدہ 1435 ھ ‘ 2؍ستمبر2014ء
سابق وزیر اعلیٰ سندھ لیاقت جتوئی نے ساتھیوں سمیت مسلم لیگ (ن) سے استعفیٰ دیدیا!
روایتی سیاستدانوں کا یہی المیہ ہے کہ وہ موقع کی مناسبت سے فائدہ اٹھانے میں ماہر ہوتے ہیں ورنہ لیاقت جتوئی اگر یادداشت کھو نہ بیٹھے ہوں تو ہم انہیں یاد دلاتے ہیں کہ دو ماہ قبل وزیراعظم کے لفٹ نہ کرانے پر یعنی ملاقات نہ ہونے پر انہوں نے مسلم لیگ (ن) سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت تو وہ …؎
ہمیں کھو کر بہت پچھتائو گے جب ہم نہیں ہونگے
بھری دنیا کو ویراں پائو گے جب ہم نہیں ہونگے
کا راگ الاپ کر وزیراعظم کا پتھر دل موم کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور آج اعلان کر رہے ہیں نفرت بھرے انداز میں مستعفی ہونے کا۔ اس وقت حکومت بحران کی زد میں ہے تو اچانک انہوں نے بھی اپنا حصہ ڈالنے کیلئے اپنے پہلے سے دئیے استعفیٰ کو کیش کرانے کیلئے پھر ایک مرتبہ اپنے استعفے کا اعلان کر کے باسی کڑھی میں اُبال لانے کی کوشش کی ہے۔ اپنی انہی حرکات کی وجہ سے یہ روایتی سیاستدان عوام کی نظروں میں اپنی وقعت کھو رہے ہیں اور ’’زمین میر و سلطان سے بیزار ہے‘‘ کا فلسفہ کہیں نہ کہیں کسی شکل میں طاقت حاصل کرتا‘ حکمرانوں کا دھڑن تختہ کرتا نظر آتا ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
لاہور میں دفعہ 144 کے تحت غلیل رکھنے پر پابندی!
گویا وہ زمانے لد گئے جب خالو خلیل فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اس دور میں غلیل سے ہی باغبان فاختائیں، کوّے، طوطے اور مینا اڑایا کرتے تھے۔ اب جدید دور میں اس غلیل کی مدد سے مخالفین کو اڑایا جا رہا ہے۔ فلسطینی بچے اور جوان ’’انتفادہ‘‘ تحریک میں غلیل کو عالمی شہرت دلوا چکے ہیں جب اس غلیل کی مدد سے وہ اسرائیلی افواج کو لشکر ابرہہ کے انجام سے دوچار کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
ہمارے بچپن میں اکثر بچے باغوں اور کھیتوں میں غلیل کی مدد سے چڑیا وغیرہ کا شکار کرتے تھے یا نشانہ بازی کرتے تھے۔ اب اسلام آباد میں غلیل کا کھلے عام نیم حکیمانہ استعمال دیکھ کر پنجاب گورنمنٹ نے اپنی چڑیاں یا فاختائیں بچانے کیلئے شریر بچوں کے اس ہتھیار پر پابندی لگا دی ہے تاکہ سائن بورڈ، ٹریفک لائٹس، دفاتر، گھروں اور گاڑیوں کے شیشوں کے ساتھ ساتھ اپنے سر بھی بچا سکیں۔ چلیں ان ہنگاموں کے دور میں ایک بھولی بسری چیز دوبارہ ہماری زندگی میں داخل ہو گئی ہے۔ اب یہ اپنا اختیار ہے ہم اس سے کسی کی آنکھ پھوڑیں یا پرندوں کو اڑائیں۔
شاید ہمارے سیانے وزیر پرویز رشید نے بھی اسی تصور کے تحت یہ فلسفہ بگھارا تھا کہ ہم غلیل والوں کے نہیں‘ دلیل والوں کے ساتھ ہیں چنانچہ اب وہ غلیل کے استعمال پر پابندی لگانے کا بھی جواز نکال سکتے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
بارش کا بھی اپنا مزہ ہوتا ہے۔ ساون گزر گیا بھادوں کے حبس آلود موسم میں کُھل کر بارش ہو تو لوگوں کے چہرے کِھل اُٹھتے ہیں اور حبس لوٹنے کی مسرت ہونٹوں پر مسکراہٹ بن کر نمایاں ہوتی ہے۔ اسلام آباد جیسے شہر میں جو خوبصورت باغوں، گرین بیلٹس اور اشجار سے سجا ہوا ہے رم جھم کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے ورنہ عام شہروں میں کیچڑ اور سیلاب سے سارا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے۔ اب کے ساون بھادوں میں اسلام آباد کی جو حالت ہے اس پر ہمیں بے ساختہ … ؎
اب کے نہ ساون برسے
اب کے برس تو برسیں گی اکھیاں
والا گیت یاد آتا ہے کیونکہ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ہر محب وطن پریشان ہے، اوپر سے بھادوں کی بارش اور دھوپ سے مظاہرین اور پولیس دونوں تو پریشان تھے ہی اب آنسو گیس کی دھواں دار بارش نے بھی سارے شہر کو رُلا دیا ہے۔ گویا آسمان سے بادل اور چہرے پر آنکھیں برس رہی ہیں، کہیں بارش کی اور کہیں آنسو کی شکل میں۔ دعا ہے یہ موسم جلد از جلد رخصت ہو، بارش کی اتنی فراوانی بھی اچھی نہیں ہوتی۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
سول نافرمانی کی اپیل مسترد، حکومتی آمدن مقررہ ہدف سے ایک ارب روپے زیادہ رہی : ایف بی آر!
لگتا ہے لوگوں نے سرکاری اداروں کی وصولی مہم جرمانوں اور بجلی، گیس و پانی کے کنکشن کاٹنے کی دھمکیوں پر مثبت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وہ بل بھی ادا کئے جو واجب الادا نہیں تھے۔ آجکل عوام الناس پانی، بجلی، گیس کے بغیر زندگی کا تصویر بھی نہیں کر سکتے کیونکہ بٹن آن کر کے جھٹ ایک منٹ میں کھانا گرم کرنا، چائے بنانا‘فریج میں عرصہ تک محفوظ چیزیں رکھنا، پانی گرم یا ٹھنڈا کرنا، چولہا جلانا، کپڑے دھونا، یہ سب چشم زدن میں کرنا ہماری مجبوری بن گئی ہے۔
پہلے کی طرح سارا دن کچن میں کام کرنا اب مشکل ہو گیا ہے اس لئے سول نافرمانی کے اعلان نے اُلٹا اثر کیا۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ…؎
وحشت میں ہر اک نقشہ اُلٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
لوگوں نے سہولتوں کے چھن جانے کے خوف سے بروقت ادائیگی کو ترجیح دے کر ’’سول نافرمانی‘‘ کا مثبت جواب دیا ہے۔
٭۔٭۔٭