ہفتہ ‘28 ذی الحج 1437ھ‘ یکم اکتوبر 2016ء
فاٹا کے عوام پر مقبوضہ کشمیر جیسے مظالم ہو رہے ہیں، مولانا فضل الرحمن
حضرت مولانا کشمیر کمیٹی کے اپنے صحت مند سراپا کی طرح سدا بہار چیئرمین ہیں۔ اصولی طور پر کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کو مقبوضہ کشمیر کے معاملات ازبر ہونے چاہئیں، حضرت مولانا کو جن اصولوں کی بنیاد پر کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا۔ ان کی سیاسی زندگی ایسے ہی اصولوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے ”تھو کوڑی“، ایسے ہی اصولوں کے گرد گھومتی ہے۔ کہا جاتا ہے فاٹا کے عوام پر مظالم کا تذکرہ انہوں نے بڑی ناراضی اور غصے سے مٹھیاں بھینچ کر کیا۔ مولانا اصولی طور پر ایسے مواقع پر ایک مٹھی بند دوسری کھول کر حالات کو بھانپتے ہوئے ذخیرہ خوراک معلیٰ اور کبھی کمر کے پیچھے لے جاتے ہیں۔ بھارت کی جارحیت سے ایل او سی پر فائرنگ اور گولہ باری سے پاک فوج کے جوانوں کی شہادت پر قوم غم و غصہ میں ہے۔ ایسے موقع پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور بھارت کو اپنے متحدہ ہونے کا پیغام دینے کی ضرورت ہے مگرمولانا اپنے تئیں فاٹا کے عوام کے ووٹ پکے کر رہے ہیں....
ہائے ”خوش بخت“ کو کس وقت خدا یاد آیا
کیا یہ ایسے بیانات کا موقع ہے۔
ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا
حضرت کے بھارت میں مفادات ہونگے مگر انہوں نے عزت، دولت، شہرت اور سب سے بڑھ کر کشمیر کمیٹی کی صورت میں لاٹری اور کمیٹی نکلتی چلی جا رہی ہے۔ مولانا نے اپنی تدبیر سے کشمیر کمیٹی کو سونے کی کان بنا لیا ہے، یہ کان انہوں نے پاکستان ہی سے پائی ہے۔ بلاشبہ سیاست کو عبادت سمجھتے ہیں، اس عبادت میں خشوع و خضوع کیلئے حیدری اور درانی کو وزراءکی ”جماعت میں شامل کرالیا۔مسئلہ کشمیر کی گونج بھارتی بربریت اور بہمیت کے بعد پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے ملا مجاہد کو تو اس جہاد میں کمانڈر ہونا چاہئیے مگر وہ بھارتی بربریت، مظالم اور جبر کو فاٹا میں بدانتظامی پر منطبق کر رہے ہیں....
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملا ہوں غازی
٭....٭....٭....٭
بھارت میں عاطف اسلم کا کنسرٹ منسوخ۔
چند روز قبل بھارتی انتہاءپسندوں نے پاکستانی اداکاروں و گلوکاروں کو 48 گھنٹے میں انڈیا سے نکل جانے کی مہلت دی تھی۔ ان فنکاروں میں راحت فتح علی خان، فواد خان، علی ظفراور مائرہ خان شامل ہیں دیگر کئی غیر معروف فنکار بھی فن کی بلندیوں کو چھونے کی حسرت لے کے بھارت گئے ہوئے ہیں۔ فواد خان اور علی ظفر تو واپس آ گئے۔ شاباش پاکستانیت کا یہی تقاضا تھا جبکہ بعض پر انتہاءپسندوں کی دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہوا، ان کو پاکستان میں موجود اسی قبیل کے فن کاروں کی طرف سے پیغام جاتا ہے کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ راحت علی اور غلام علی کی کیسی عزت افزائی ہوئی مگر وہ گا رہے ہیں غلام ہیں، غلام ہیں گﺅ ماتا کے پجاریوں کے غلام ہیں۔ پیسے کی خاطر سراپا نیلام ہیں۔ چھپ چھپ کر کنسرٹ کرنے میں کتنا مزا آتا ہو گا۔ روپے میں ان کو فن شناسی نظر آتی ہے۔ فن کی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ فنکار کی تو ہوتی ہیں فنکار ہوا میں پیدا نہیں ہوتا۔ فن اسے ہواﺅں سے بھی زیادہ بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے۔ سچا فنکار وہی ہے جو اپنے وطن سے محبت کرتا ہے ایسے فنکاروں کی پاکستان میں کمی نہیں، ان کو پاکستانی سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں جو دشمن ملک میں بیٹھ کر جوتے کھاتے ہیں وہ ملک کی بدنامی کا بھی باعث بنتے ہیں۔ یہ فنکار ہنوز پاکستان آنے کو تیار نہیں شاید ”مکالے“ کروا کے آئیں۔بھارت نے پاکستان میں ڈش نشریات روک دیں، خرافات کے خاتمے پر شکریہ، کسی طریقے سے کیبل بھی اپنے ملک تک محدود کر لیں۔ قابل احترام ہیں سینما مالکان جنہوں نے بھارتی فلمیں اتار دیں جو ابھی تک چلا رہے شاید وہ آگ تاپنا چاہتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
جھمب میں انڈین فوجی پکڑ لیا‘ پاکستانی حکام۔ غلطی سے سرحد پار کرگیا‘ واپس کردیں۔ بھارت۔
عام آدمی تو سرحد پار کرنے کی غلطی کر سکتا ہے کیونکہ اسے علم نہیں ہوتا کہ بارڈر لائن کہاں سے شروع ہو رہی ہے۔ یہ کیسا فوجی ہے؟ بھارت ہمارے کبوتروں کو پکڑ کر ہم پر دراندازی کا الزام لگاتا ہے جبکہ ہم نے اس کا درانداز دبوچ لیا ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ فوجی چوری چھپے پیدل ہی پاکستان کے اندر سرجیکل سٹرائیک کرنے گھس آیا ہو اور دھرلیا گیا جس پر بھارتی حکام کی طرف سے اعتراف کیا جارہا ہے کہ غلطی سے آگیا‘ واپس کردیں۔ بھارت طاقت کے زعم میں جس طرح غلطیوں پر غلطیاں کررہا ہے‘ اب اسکی غلطیوں کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کل کلاں وہ پاکستان پر حملہ کرکے معافی مانگنے کے بھی قابل نہیں رہے گا۔ ایسی ہی ایک غلطی اس نے نوزائیدہ پاکستان کے ساتھ 1948ءمیں کی تھی جس کا پاکستان نے منہ توڑ جواب دیا تھا اور اسے الٹے پاﺅں اقوام متحدہ بھاگنا پڑا تھا کہ پاکستان سے میری جان چھڑاﺅ‘ بہت ماررہا ہے۔اگر مان بھی لیا جائے کہ بھارت نے پاکستان میں سرجیکل سٹرائیک کی ہے تو اسکی طرف سے سرجیکل سٹرائیک بالکل کبڈی کے کھیل کی طرح کی گئی ہے جس میں وہ ہمارے احاطے میں داخل تو ہوا مگر ہاتھ لگائے بغیر ہی واپس بھاگ گیا۔
٭....٭....٭....٭
عمران خان کے سٹیج پر چڑھتے ہوئے سیڑھی ٹوٹ گئی۔
اللہ خیر کرے‘ عمران خان جب بھی کسی بڑے مشن پر نکلتے ہیں انکے ساتھ کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا حادثہ رونما ہوجاتا ہے۔ ایک مرتبہ وہ سٹیج سے گر کر ہسپتال پہنچ گئے تھے‘ ایک مرتبہ لفٹر پر چڑھتے ہوئے بھی لڑکھڑا گئے تھے۔ کبھی وہ لفٹ میں پھنس جاتے ہیں اور اب سیڑھیاں توڑ بیٹھے۔ عمران خان اس وقت عمر کے جس حصے سے گزر رہے ہیں‘ اس میں سارے کام سٹیج پر چڑھ کر نہیں بلکہ زمین پر بیٹھ کر کئے جاتے ہیں۔ بے شک وہ ایکسرسائز پابندی سے کرتے ہیں لیکن انہیں مان لینا چاہیے کہ ....
کوئی کہندا اے پیڑ لکے دی ‘کوئی کہندا اے چُک
سچی گل اے محمد بخشا اندروں گئی اے مُک
عمران صاحب بار بار تلکنا (پھسلنا) چھوڑ دیں ‘ انکے بار بار تلکنے کی وجہ سے انکی دو شادیاں بھی تلک گئیں اور انکی سابقہ بیگمات انہیں میڈیا پر دیکھ کر کہتی ہونگی....
چھاپ تلک سب چھین لی رے موسے نیناں ملائی کے