بدھ‘ 11؍جمادی الثانی 1436ھ ‘ یکم اپریل 2015ء
پولیس فلمی سٹائل بنائے، افسر دبنگ اور ہیرو بنیں۔ چودھری نثار
پولیس والے پہلے کب کسی کے قابو میں تھے کہ اب وزیر داخلہ انہیں مزید ہلاشیری دینے لگے ہیں۔ ذرا حلیہ بدل کر چودھری نثار کسی دن عام شہری، دیہاتی بن کر کسی بھی تھانے کا رخ کریں تو انہیں پولیس کی طاقت اور ہیبت کا اندازہ ہو جائے گا۔ تھانے کی ڈیوڑھی پار کرنا بھی ان کے لئے پل صراط کا سفر بن سکتا ہے۔ پھر تھانے میں موجود پولیس والوں کی بے اعتنائی جھڑکیاں اور تذلیل آمیز رویہ انہیں پاتال کی سیر کرائے گا۔ ایس ایچ او تو بڑے دور کی بات ہے تھانہ کا عام اے ایس آئی یا محرر بھی اس کی طرف دیکھنا گوارا نہیں کرے گا صرف کوئی کاکا سپاہی شاید ان پر ترس کھا کر یا اس سے کچھ پیسے ملنے کی امید پر اس سے ہم کلام ہو۔ ایس ایچ او صاحب کو اپنے کمرہ خاص میں جہاں اے سی یا ائرکولر لگا ہوتا ہے بیڈ بچھا ہوتا ہے فریج سے ٹھنڈے مشروبات یا اوون سے گرم گرم کھانا نوش کرتے یا آرام فرماتے پائے جاتے ہیں۔ ان سے ملاقات صرف صاحب حیثیت لوگوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ عام شہری یا دیہاتی تو تھانہ کے گیٹ پر صرف ان کی گاڑی کا دیدار ہی کر پاتے ہیں۔ اب ایسے حالات میں وزیر داخلہ کی طرف سے پولیس افسران کو دبنگ اور ہیرو بننے کا مشورہ جلتی پر تیل ڈالنے والی بات ہی ہو سکتا ہے۔
دبنگ تو یہ پہلے سے ہی ہیں ہیرو بننے کی اکثر کوشش کرتے رہتے ہیں مگر جن کی قسمت میں ہی کاتب تقدیر نے ولن بننا لکھ دیا ہو وہ ہیرو کیسے بن سکتے ہیں۔ اگر ہیرو بننے کی راہ پر چل پڑے تو پھر فلمی دنیا جیسی زندگی انہیں کہاں نصیب ہو گی۔ یہ عالیشان گھر گاڑیاں، نوکر چاکر، بنک بیلنس، عیاشیاں سب کچھ تو فلموں میںبھی ولن کے نصیب میں ہی ہوتے ہیں۔ ہیرو بے چارا تو فلمی دنیا میں بھی بھوکا ننگا اور غیرت کا مارا ہوتا ہے۔ جو حرام خوری اور جرم سے نفرت کرتا ہے اور جو سہولتیں ہمارے پولیس والوں کو میسر ہیں اور جیسی زندگی وہ بسر کر رہے ہیں یہ صرف اور صرف ولنوں کے نصیب میں ہی ہوتی ہیں۔ یہ کبھی ہیرو نہیں بن سکتے۔
٭…٭…٭…٭
الطاف نے پارٹی قیادت چھوڑنے کا فیصلہ پھر واپس لے لیا۔
یہ آنیاں جانیاں تو ایم کیو ایم کے قائد کی لگی رہتی ہیں عوام پہلے پہل تو اس قسم کے بیانات اور اعلانات پر نہایت دکھ اور پریشانی کا اظہار کرتے تھے۔ اب آہستہ آہستہ ان میں یہ جذبہ رنج و غم بھی مدہم پڑ گیا ہے کیونکہ مشہور مقولہ ہے… ’’قدر کھو دیتا ہے روز کا آنا جانا‘‘۔
اب آئے روز ایک ہی طرح کا جذباتی ڈائیلاگ اور لوگوں کو جذباتی طور پر بلیک میل کرنا بھی آہستہ آہستہ اہمیت کھونے لگتا ہے۔ ویسے بھی سنتے آئے ہیں کہ تین مرتبہ کہی ہوئی بات حجت بن جاتی ہے۔ اس حساب سے تو الطاف بھائی کئی مرتبہ اتمام حجت کر چکے ہیں مگر کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ نہ وہ قیادت سے دستبردار ہوتے نہ عوام نے ان کی جگہ کسی اور کو نیا سربراہ بنایا۔ کیا یہ حکم عدولی نہیں… اب لگے ہاتھوں فاروق ستار کے دل سے کوئی پوچھے کہ اس کا کیا حال ہے۔
جب الطاف بھائی نے اپنی جگہ ان کو نامزد کرنے کا بیان دیا تو ایک مرتبہ وہ بھی سرشاری کی حالت میں حسن بن سبا والی جنت کے مناظر دیکھ کر مدہوش سے ہو گئے ہوں گے۔ بہت برا ہوا ان کے ساتھ کہ اگلے ہی چند گھنٹوں بعد الطاف بھائی نے حسب روایت ایم کیو ایم کے عہدیداروں کی پرزور فرمائش پر اپنی دستبرداری سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا معلوم نہیں یہ پرزور فرمائش کہاں سے کی گئی۔ فاروق ستار بھائی کی امیدوں پر اوس پڑ گئی ہو گی مگر انہیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں وہ کہتے ہیں ناں کہ…ع
’’اگر ہے تشنگی کامل تو پیمانے بھی آئیں گے‘‘
کبھی نہ کبھی تو الطاف بھائی حقیقت میں پارٹی سے دستبردار ہو ہی جائیں گے۔
٭…٭…٭…٭
اسلام آباد کو سموکنگ فری شہر بنانے کا فیصلہ۔ خلاف ورزی پر ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔
شکر ہے ایک اچھے کام کا آغاز ہونے چلا ہے۔ خدا کرے یہ کام صرف بیانات اور اعلانات تک ہی محدود نہ رہے اور سبزہ و گل سے آراستہ یہ شہر اس موسم بہار میں سگریٹوں کے بدبودار دھوئیں سے پاک نظر آئے اور ملک بھر کے لئے مثال بن جائے۔ اگر سکھوں کا مقدس شہر امرتسر تمباکو فری ہو سکتا ہے تو ہمارا اسلام آباد سموکنگ فری کیوں نہیں ہو سکتا۔
یہ کام صرف اسلام آباد کی حد تک ہی محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ اسے ملک بھر میں عام کیا جائے کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں سگریٹ نوشی پبلک مقامات پر سختی سے ممنوع ہے۔ یہ پابندی ویسے تو ہمارے ملک میں بھی کافی عرصہ سے لگی ہوئی ہے۔ مگر اس پر عمل ہوتا کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ سڑکوں، گلیوں، گھروں، دفاتر، ہسپتالوں، ٹرینوں، بسوں، ہوائی اڈوں اور تفریحی مقامات تک میں بڑے دھڑلے سے سگریٹ نوش افراد اپنی صحت کے ساتھ ساتھ دوسری کی صحت سے کھیلتے پائے جاتے ہیں، کیونکہ سگریٹ کے دھوئیں سے صرف پینے والا ہی نہیں آس پاس اس سے متاثر ہونے والے افراد بھی مختلف عوراض کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر ہماری حکومت پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی کرنے والوں کے خلاف قوانین کے مطابق کارروائی یقینی بنائے تو قید اور جرمانے کا خوف ماحول کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اور اس سلسلے میں … ؎
مجھے پینے کا شوق نہیں
پیتا ہوں غم بھلانے کو
جیسی مثالیں دینے والوں سمیت کسی سے بھی رعایت نہ بھرتی جائے۔ یاد رکھیں تعزیر کا خوف ہی جرم سے باز رکھتا ہے۔
٭…٭…٭