ملک کو احسن طریقے سے چلانے اور لوگوں کے مسائل حل کرنے میں سیاستدانوں اور بیوروکریسی کو ایک تو دلچسپی نہیں اور دوسرا ان دونوں طبقوں میں اہلیت کا خوفناک حد تک فقدان محسوس ہوتا ہے۔ ساٹھ ستر اور اسی کی دہائی میں سیاستدان اور بیوروکریٹس ملک کے بارے میں سوچتے تھے اور مسائل حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے تھے لیکن پھر اچانک رجحان بدل گیا۔ نوے کی دہائی تو سیاسی کشمکش اور تنازعات کی دہائی تھی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ایک پورا عشرہ سیاسی آویزش جاری رہی۔ دونوں جماعتوںکا زور ایک دوسرے کی حکومت کو اقتدار سے نکال باہر کرنے پر صرف ہوتا رہا۔ بیوروکریسی بھی چپقلش میں دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک حصہ مسلم لیگ (ن) کا وفادار بن گیا اور دوسرا پیپلز پارٹی کا۔ جس جماعت کی حکومت بنتی تھی وہ اپنے چہیتے افسران کو اعلیٰ عہدوں پرلگا دیتی۔ اس عرصہ میں ملکی مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں نہ تو کوئی منصوبہ بندی ہو سکی اور نہ کوئی حکمت عملی بن سکی۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان کشمکش کا یہ دور 12 اکتوبر 1999ءکو فوجی ٹیک اوور پر ختم ہوا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں بظاہر یہ محسوس ہوتا تھا کہ ملک کا انتظام ٹھیک چل رہا ہے لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس دور میں کلیدی مسائل کے حل کیلئے کوئی مربوط اور موثر حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔ شوکت عزیز اس دور میں حکومت کے معاشی دماغ تھے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک بنکر تھے۔ پاکستان کے معاشی مسائل کا ادراک کر کے ان کا حل تلاش کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ بعض معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ موصوف نے پاکستان میں ایک کنزیومر سوسائٹی (Consumer Society) بنانے کی کوشش کی۔ لوگوں کو موبائل فونوں اور کاروں کی طرف لگا دیا۔ بنکوں کو کہا گیا کہ وہ کاریں خریدنے کے لئے قرض دیں‘ اس طرح ٹیلی کام کمپنیوں اور کار ساز کمپنیوں کے وارے نیارے ہو گئے۔ توانائی انفراسٹرکچر اور صنعتوں کے قیام کو اس دور میں نظر انداز کر دیا گیا۔
جنرل مشرف نے اپنے دور میں کچھ عرصہ کے لئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے مہم شروع کی وہ خیبر پختونخواہ اور سندھ کے دورے کرتے رہے اور دونوں صوبوں کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی حمایت پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن پھر اچانک انہوں نے یہ مہم بند کر دی۔ اس دوران توانائی پیدا کرنے کا کوئی قابل ذکر منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکا۔ دوسری طرف بڑھتی ہوئی آبادی کی جہاں گھریلو سطح پر توانائی کی ضروریات بڑھ رہی تھیں وہاں صنعتوں کو بھی توانائی کی ضرورت تھی۔ ان دونوں شعبوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کچھ نہ کیا گیا۔شوکت عزیز کی وزارت عظمیٰ کے آخری سالوں میں جب بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتیں چالیس اور پچاس ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 140 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں تو شوکت عزیز حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا کیوں کہ جنرل مشرف ایک مرتبہ پھر صدارتی اور شوکت عزیز وزارت عظمیٰ کا الیکشن لڑنا چاہتے تھے وہ ووٹروں کو خوش کرنے کی کوشش میں تھے۔ یہ وہ دور ہے جس میں آئی پی پیز کو بجلی پیدا کرنے کے لئے بنکوں سے قرضے لینے کا مشورہ دیا گیا۔ یہ قرضہ کھربوں روپے تک پہنچ گیا۔ یہی قرضہ وہ گردشی قرضہ ہے جو زرداری حکومت کو ورثے میں ملا۔
زراری حکومت کی ”اہلیت“ اور ”دیانتداری“ سے کون واقف نہیں اس حکومت نے توانائی کا مسئلہ حل کرنے کی بجائے حکومت کو ”مفاہمت“ کے ذریعہ بچائے رکھنے کی پالیسی اپنائی۔ دنیا بھر کے ماہرین پی پی پی حکومت کو مشورہ دیتے رہے کہ وہ پاور سیکٹر میں اصلاحات کرے اور بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کرے۔ لیکن اس حکومت کا اس طرف دھیان ہی نہیں تھا۔
2013ءمیں بننے والی موجودہ حکومت سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اپنے تجربے اور اہلیت کی بنیاد پرحالات کو بہتر بنائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے یہ تاثر عام کیا کہ توانائی کا مسئلہ حل کرنے کی کنجی اس کے پاس ہے۔ لیکن اب جب اقتدار اس کے ہاتھ آیا ہے تو بہتر مینجمنٹ اور حسن انتظام کے دعو¶ں کی قلعی کھل گئی ہے۔ توانائی کا بحران اور بھی شدید ہو گیا ہے۔ پٹرول کی قلت نے ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے پٹرول کے بحران پر حکومت بوکھلا ئی ہوئی لگتی ہے۔ سینئر وزراءنے اعتراف کیا ہے کہ پٹرول کا بحران حکومت کی نااہلی ہے لیکن کوئی وزیر مستعفی ہونے کے لئے تیار نہیں۔ پٹرولیم کے وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ معلوم ہی نہیں کہ یہ بحران کیسے پیدا ہوا ؟ مسلم لیگ (ن) کی حکومت چند ہفتوں میں اپنے اقتدار کے تیسرے سال میں داخل ہو جائے گی۔ اس حکومت کے کرتا دھرتا افراد کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ ان سے کیا غلطیاں ہو رہی ہیں۔ اور وہ کیسے ان کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ نواز شریف نے کئی بار کہا کہ ملک کے معاشی مسائل حل کرنے کے لئے ایک ”معاشی چارٹر“ کی ضرورت ہے جو تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونا چاہئے۔ میاں صاحب اس چارٹر پر کام کیوں نہیں کرتے !
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38