نظامی صاحب ،تاریخ ساز شخصیت
کچھ لوگ تارےخ ساز ہوتے ہےں اور کچھ تارےخ مےں نام بناتے ہےں مجےد نظامی صاحب تارےخ ساز ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی پوری تارےخ بنا گئے
بچھڑاکچھ اِ س ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
وہ اک شخص سارے شہر کو وےران کر گےا
مےرا ہی نہےں بہت سارے لوگوں کا مجےد نظامی سے اپنے اپنے طور پر رشتہ ہوگا مجےد نظامی صاحب مجھے نہےں جانتے تھے مگر مےری طرح کے ہزاروں لوگ اُنہےں جانتے تھے اُنہےں اپناپےرو مرشد مانتے ہونگے اِنہےں گم نام لوگوں کی لسٹ مےں اےک مےں بھی شامل تھی اُن سے وابستگی کی اےک ہی وجہ مےرے پاس تھی اور وہ روز نامہ نوائے وقت کا قاری ہوناتھا ہمارے گھر نوائے وقت کا آنا اور اخبار سے وابستگی نے مجےد نظامی صاحب سے روشناس کرواےا
مےٹرک پاس کرنے کے بعد اےف سی کالج مےں اےڈمےشن لے لےا لےکن کچھ دن بعد ہی ہمےں پتہ چلا کہ اسلامےہ کالج کوپر روڈ نوائے وقت کے دفتر کے زےادہ قرےب ہے تو ہمارے گروپ نے سوچا کہ اےف سی کالج کو خےر آباد کہہ کر اسلامےہ کالج کوپر روڈ مےں اےڈمےشن لےاجائے تاکہ وہا ں سے کسی نہ کسی طرح نوائے وقت کے دفتر پہنچ کر مجےد نظامی صاحب سے ملاقات کی جائے اور اُنہےں ےہ بتاےا جائے کہ ہم طالب علم کے حےثےت سے نظرےہ پاکستان کو زندہ رکھنے مےں آپ کے ساتھ قدم بہ قدم چلنا چاہتے ہےں
طالب علمی کا زمانہ ہی اتنا جذباتی ہوتا ہے کہ جو چےزےں ہم پڑھتے تھے سمجھتے تھے پاکستان کے اصل ہےرو ہم ہےں تارےخ پڑھتے ےا کوئی اور کتاب پڑھتے تمام تارےخ کے ہےروز مانہ طالب علمی سے ہی عملی سےاست مےں حصہ لےتے اور پھر پاکستان کی خدمت پر مامور ہو جاتے اسی طرح ہمارا نظرےہ تھا اور اسی نظرےے کو لے کر ہمارے گروپ کو جو ہمارا ہےرونظر آتا تھا وہ مجےد نظامی صاحب ہی تھے جب بھی کبھی نظرےہ پاکستان کی بات سنتے تو وہ آج کے دور مےں صرف نظامی صاحب کے منہ سے سُنے تھے
پاکستان سے محبت کا ےہ عالم تھا کہ جب بھی کبھی کوئی دہشت گردی کا ےا پاکستان کے حالات خراب ہونے کا پڑھتے ےا سُنتے تو جوش مزےد بڑھ جاتا کہ نظامی صاحب سے مل کر ان حالات پر ڈسکس کےا جائے کہ سر آپ تو نظرےہ پاکستان کے بہت بڑے حامی ہےں آپ ہی اس کے بارے تمام پاکستان کے طالب علموں کو جمع کرے اور اُنہےں پاکستان اور نظرےہ پاکستان کا اصل مقصد سمجھائے تاکہ پاکستان کے موجودہ حالات کچھ بہتر ہوسکے ہم اپنی نئی نسل کو اس بات سے آگاہ کرتے رہے کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے جس نے پاکستان کے وجود کو آج تک تسلےم نہےں کےا ہے اور بھارت پاکستان کو کسی نہ کسی طرح لحاظ سے عدم استحکام کا شکار رکھتا ہے وہ پاکستان کو اپنا دوبارہ حصہ بنانے کے لئے کسی بھی حد تک گرنے کو تےا ر رہتا ہے مشرقی اور مغربی پاکستان کا علےحدہ ہونے کا دکھ کبھی بھی کسی حکمران کے منہ سے نہےں سُنانہ ہی کبھی اس کے بارے مےں کوئی ٹھوس اقدامات کےے گئے مگر نظامی صاحب کو اس بات کا دکھ رہتا تھا او ر اپنے اکثر خطابات کے دوران وہ مشرقی پاکستان کا ذکر کےا کرتے تھے کشمےر اور مشرقی پاکستان کے بغےر وہ پاکستان کو ادھورا پاکستان تصور کرتے تھے23 مارچ 1940ءکو پاکستان کا جو نظرےہ جو مقصد مد نظر رکھا گےا تھا اُس نظرےے کے مطابق بجائے ہم کشمےر کے لئے جدوجہد کرتے اُلٹا پاکستان اپنا اےک بازو کٹوا بےٹھا23 مارچ 2014کو ےوم پاکستان کی تقرےب کے دوران اور بھی بہت ساری جگہوں پر وہ اپنے خطابات سے باور کرواتے رہتے کہ پاکستان کشمےر اور مشرقی پاکستان کے بغےر ادھورا ہے
مجےد نظامی صاحب نے جن خوبصورت الفاظوں کے ذرےعے قوم کو اور حکمرانوں کو پاکستان مکمل ہونے کا درس دےا اگر کوئی بھی حکومت ملک مےں امن و امان قائم کروا کے مجےد نظامی صاحب کے نظرےے کو جاری رکھتی تو آج پاکستان بھی جاپان کی طرح بھارت کو اور امرےکہ کو گھٹنے ٹےکنے پر مجبور کر سکتا تھا اپنے خطابات مےں بہت واضع الفاظوں مےں نظامی صاحب نے فرماےا کہ مےں اےک متحدہ مسلم لےگ دےکھنا چاہتاہوں اور خدا کرے کہ مےری زندگی مےں ہی وہ دن آجائے مےرے خےال مےں پاکستان کو بنانے والی جماعت ہی اےسے موجودہ تباہ کن مسائل سے نجات دلواسکتی ہے مےری آپ سے گزارش ہے کہ آئندہ انتخابات مےں سوچ سمجھ کر لوگوں کوووٹ دےں جو پاکستان کو قائد اعظم اور علامہ محمد اقبال کے مقصد کے مطابق اےک جدےد اسلامی جمہوری رےاست بنا سکے۔
مجےد نظامی صاحب کی اےسی باتےں مجھ پر اےک سحر کا سا اثر کرتےں سوچا کسی نہ کسی دن اُن سے ملاقات ضرور کروں گی اور اُنہےں بتاﺅں گی کہ مےں بھی اُن کے ساتھ نظرےہ پاکستان کو لے کر قدم بہ قدم چلنا چاہتی ہوںمگر کچھ ذاتی وجوہات کی بنا ءپر مےں اُن سے مل نہےں پائی اور 26 جولائی 2015 کو خبر ملی کہ مجےد نظامی صاحب اللہ کو پےارے ہوگئے ےہ خبر پڑھنے کی دےر تھی کہ مےں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی مےری امی دوڑتی ہوئی آئی پوچھا کہ کےا ہوااور مےرا اپنا گھر اس طرح صدمے سے دوچارتھا جےسے پتا نہےں کتنا قرےبی ہمےں اس دنےا مےں اکےلا چھوڑکر چلا گےااُس دن لگا کہ مجےد نظامی صاحب نہےں خدا نخواستہ نظرےہ پاکستان ختم ہوگےاقائد اعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کی آواز اٹھانے والا آج ختم ہوگےا
مجےد نظامی صاحب اےک قد آور شخصےت تھے اےسے پےرو ں کی شخصےت پرستی کرنا بھی جائز ہوتی ہے جو کہ محب وطن اور سچے لوگ ہوتے ہےں تارےخ بنانے والے اور بن جانے والے ہوتے ہےں کتنی ہی صدےو ں کے بعد اےسے لوگ پےدا ہوتے ہےں جن کے چاہنے والے دنےا کے کونے کونے مےں ہوتے ہےںمجےد نظامی صاحب سے ملاقات کا ارمان دل مےں ہی رو گےامگر اُن کا دےا ہوا راستہ بہت روشن ہے اُن کا دےا ہوا سبق اچھی طرح سے ےاد ہے مجےد نظامی صاحب مےرے علاوہ پتہ نہےں کتنے لوگوں کے دلوں مےں زندہ ہے اور ہمےشہ زندہ رہےں گے