پشاور: خوکش حملہ، ایڈیشنل آئی جی، محافظ سمیت شہید، 8 پولیس اہلکار زخمی
پشاور‘ اسلام آباد (بیورو رپورٹ ‘نمائندہ خصوصی‘نیوز ایجنسیاں ‘ نوائے وقت رپورٹ) پشاور کے پوش علاقہ حیات آباد میں خودکش حملے میں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پی کے محمد اشرف نور محافظ سمیت شہید جبکہ 8 پولیس اہلکار شدید زخمی ہوگئے۔ ایڈیشنل آئی جی کی گاڑی کو حیات آباد کی زرغونی مسجد کے قریب اس وقت خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیاجب وہ اپنے محافظوں کے ہمراہ گھر سے دفتر جارہے تھے۔ زخمی اہلکاروں میں 2 کی حالت نازک بتائی جارہی ہے۔ محمد اشرف نور جو پولیس میں ایڈیشنل انسپکٹرجنرل ہیڈکوارٹرز کے عہدے پر تعینات تھے، صبح 9 بجے حیات آباد پشاور میں واقع اپنی رہائش گاہ سے اپنی گاڑی میںصاحبزادہ عبدالقیوم خان روڈ پر واقع سنٹرل پولیس آفس جارہے تھے، انکے محافظین ایک دوسری گاڑی میں آرہے تھے جب گاڑیاں حیات آباد کے فیزٹو میں زرغونی مسجد کے قریب ٹرن لینے کیلئے آہستہ ہوئیں تو گھات لگائے موٹرسائیکل سوار خودکش حملہ آور نے اچانک انکے قریب پہنچ کر دھماکہ سے اُڑا ڈالا۔ دھماکہ کی زور دار آواز سے پورا علاقہ لرزاٹھا اور اس کے نتیجہ میںایڈیشنل آئی جی کی گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی۔ دھماکہ سے قریب واقع عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔ واقعہ کی اطلاع ملنے کے بعد امدادی ٹیمیں فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں۔ اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر علاقے کو سیل کردیا اور جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کئے۔ موٹرسائیکل کے پارٹس اور خودکش حملہ آور کے اعضاء تحویل میں لے لئے۔ ایس ایس پی آپریشن سجاد خان کے مطابق اے آئی جی کی گاڑی پر ہونے والے خودکش دھماکے میں 15 سے 20 کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا۔ اشرف نور روزانہ روٹ تبدیل کر کے آفس جاتے تھے، پولیس ترجمان جلال الدین خان کے مطابق زخمی اہلکاروں میں ہیڈ کانسٹیبل (گن مین) روح اللہ، کانسٹیبل ذیشان (خودکش کا نشانہ بننے والی گاڑی کا ڈرائیور)، ذیشان (سکواڈ ڈرائیور)، اعجاز، کامران، شوکت خان، عماد علی اور سہراب شامل ہیں۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل محمد اشرف نور کی نماز جنازہ پولیس لائن میں ادا کردی گئی جس میں گورنر انجینئر اقبال ظفر جھگڑا، سپیکر اسمبلی اسد قیصر، صوبائی وزیر جمشید الدین کاکا خیل، کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل نذیر احمد بٹ، انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین خان محسود، کمانڈنٹ فرنٹئیر کانسٹیبلری لیاقت علی خان، رکن اسمبلی فضل الٰہی، پاکستان ائیر فورس اور محکمہ پولیس کے اعلیٰ افسران اور اہلکاران نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ پولیس نے دھماکے کی ابتدائی رپورٹ تیار کرلی جس کے مطابق دھماکا خودکش تھا اور حملہ آور ہنڈا ڈیلیکس موٹرسائیکل پر سوار تھا۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبرپختونخوا صلاح الدین خان محسود نے کہا ہے کہ خیبر پی کے پولیس پاکستان کے بقاء کی جنگ لڑرہی ہیں، حوصلے پست نہیں بلند ہوئے ہیں، اگر ملک و قوم کیلئے مزید قربانیوں کی ضرورت پڑی تو دیں گے۔ ایڈیشنل آئی جی ہیڈ کوارٹر اشر ف نورصوبہ کی پولیس کمانڈ میں سینیارٹی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر تھے ان کا تعلق پاکستان کے شمالی خطہ گلگت بلتستان سے تھا جنہوں نے 18 نومبر 1989 کو پولیس سروس جوائن کی۔ اسلام آباد سے نمائندہ خصوصی کے مطابق صدر ممنون حسین، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حیات آباد پشاور میں خودکش دھماکہ کے واقعہ کی مذمت کی۔ وزیراعظم نے کہا حملے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ منطقی انجام تک پہنچانے کے عزم میں کمی نہیں آئے گی۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے پشاور میں شہید ہونے والے پولیس کے اے آئی جی اشرف نور کو عظیم شہادت پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مادر وطن کو درپیش خطرات کے خلاف ہمارا عزم غیر متزلزل رہے گا۔ اے آئی جی پولیس اشرف نور کی عظیم شہادت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ مادر وطن کو درپیش خطرات کے خلاف ہمارا عزم غیر متزلزل رہے گا۔ عمران خان، سابق صدر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، شہباز شریف، پرویز مشرف، فضل الرحمن اور دیگر سیاستدانوں نے حملے کی شدید مذمت کی۔ آئی جی پنجاب پولیس عارف نواز نے حملے کے بعد صوبے میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی ہے۔ سکردو سے نامہ نگار کے مطابق ایڈیشنل آئی جی پولیس محمد اشرف نور کو ضلع سکردو کے آبائی قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔ قبل ازیں ان کی میت سی 130 میں پشاور سے سکردو لائی گئی۔ گلگت بلتستان کے فورس کمانڈر جنرل ثاقب محمود ملک خصوصی طور پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے جنازے میں شرکت کے لئے گلگت سے سکردو پہنچے۔ کمانڈر آرٹلری بریگیڈئر یاسر نواز‘ کمانڈر 62 بریگیڈ۔ بریگیڈئر اظہر منیر کاہلوں اور کمانڈر سیاچن بریگیڈ۔ بریگیڈیئر نصیر بھی نماز جنازہ میں موجود تھے۔ مرحوم حاجی محمد اشرف نور کا تعلق ضلع سکردو کے علاقے سرمیک سے تھا۔ مرحوم نے ضلع کوہستان‘ ضلع مانسہرہ‘ ضلع ایبٹ آباد میں خدمات سرانجام دیں۔ اقوام متحدہ کے امن مشن میں افریقہ اور بوسنیا میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ مرحوم ایک ملنسار‘ دیانتدار‘ وضع دار انسان تھے۔ ان کی دو بیویاں اور آٹھ بچے ہیں۔ ایک بیوی کا تعلق پشاور سے ہے جبکہ دوسری ان کی اپنی چچازاد ہیں۔ مرحوم کی راولپنڈی میں موجود بیوی اور بچے جہاز کی سیٹ نہ ملنے کی و جہ سے تدفین کے موقع پر سکردو نہیں پہنچ سکے۔