حضرت امام حسینؓ جوانان جنت کے سردار
ڈاکٹر علامہ محمد حسین اکبر
تین شعبان المعظم 4ھ مدینہ منورہ کی نورانی شب میں سلسلہ امامت کے تیسرے تاجدار نواسہ رسولؐ فرزند علیؓ و بتولؓ حضرت امام حسینؓ کی ولادت باسعادت ہوئی، گھٹی میں لعاب دھن رسالتؐ ملا۔کیا ہی پاکیزہ ترین گھٹی کہ علوم نبوت، و کمالات رسالت رگ رگ میں داخل ہوگئے۔
حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ زہرائؓ کی درخواست پر رسول خداؐ نے وحی الٰہی سے اس شہزادے کا نام، حسین تجویز فرمایا سلسلہ نسب اتنا عظیم کہ پوری کائنات میں امام حسینؑ کا کوئی بھی ثانی نہیں۔ نانا خاتم الانبیاء سید المرسلین حضرت محمد ،ؐ نانی حضرت ام المومنین خدیجہ الکبریؓ، دادی حضرت فاطمہ بنت اسدؓ، باپ سیدالاولیا امام المتقین حضرت علی ابن ابی طالبؓ، اور والدہ سیدہ نساء العالمین صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرائؓ، بھائی جوانان جنت کے سردار حضرت امام حسن مجتبیٰ ؓ، بہنیں کربلا کی شیر دل خاتون فاتحہ کوفہ، شام حضرت زینب بنت علیؓ اور ام کلثومؓ ہیں۔
حضرت رسول اکرمؐ نے فرمایا حسین ’’منّی وانا من الحسین‘‘ حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں اور پھر ارشاد فرمایا، ان الحسین مصباح الھدیٰ وسفینتہ النجاۃ، بے شک حسینؓ چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہے۔ ایک اورفرمان میں ارشاد فرمایا۔ ’’الحسن و الحسین سید الشباب اہل الجنۃ‘‘ امام حسنؓ اور امام حسینؓ جوانان جنت کے سردار ہیں ’’وابوھما خیر منھما‘‘ اور ان دونوں کے والدین ان دونوں سے افضل ہیں۔
ارشاد فرمایا، الحسن و الحسین ریحانتان، حسنؓ اور حسینؓ میری خوشبو ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آپ ان دونوں شہزادوں کو سونگھا کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے مجھے جنت کی خوشبو آتی ہے۔ اور ارشاد فرمایا، میں حسنؓ اورحسین ؓسے محبت کرتا ہوں اے میرے اللہ تو بھی ان سے محبت فرمایا جو ان سے محبت کرتے ہیں، اور تو بھی دشمن ہوجا ان کا جو حسینؓ کے دشمن ہیں۔ آپ کے لئے جبرائیل امین جنت سے کپڑے لاتے، جنت کے کھانے لاتے، بچپن میں آپؓ کا جھولا جھلاتے امام حسینؓ کا بچپن ملاحظہ ہو۔ رسول خداؐ مسجد نبوی میں نماز کی امامت فرما رہے ہیں حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ کے گھر کا دروازہ صحن مسجد نبوی میں کھلتا تھا۔ جبکہ باقی تمام اصحاب کے گھروں کے دروازے بند تھے۔ امام حسینؓ گھر سے نکلے اور جاکر ناناؐ جو کہ حالت سجدہ میں تھے ان کی پشت پر سوار ہو گئے آپؐ سجدے کو طول دیتے گئے یہاں تک کہ جناب امام حسینؓ اپنی مرضی سے ناناؐ کی پشت سے اترے، اسی طرح ایک دن رسولؐ خدامسجد نبوی میں خطبہ دے رہے تھے کہ اتنے میں امام حسینؓ گھر سے نکلے صحن مسجد نبویؐ میں پہنچے اتنے میں آپ کا پائوں قمیض کے دامن میں الجھا اور آپ گر پڑے رسولؐ خدانے خطبہ چھوڑ دیا۔ منبر چھوڑ دیا اور خود آگے بڑھ کر امام حسینؓ کو اٹھالیا، چوما اپنے زانو پر بٹھالیا اور اپنا پہلا بیان چھوڑ کر ارشاد فرمایا: اے انسانوں یہ حسین ؓہیں ان کو پہچانو ان کی عزت کرو، ان کی اطاعت کرو کیونکہ یہ جنتی ہیں ان کے بھائی حسنؓ جنتی ہیں میں محمدؐ ان کا ناناؐ جنتی ہوں ان کی نانی خدیجہ الکبریٰؓ جنتی ہیں۔ ان کا باب علیؓ اور ماں فاطمہؓ جنتی ہیں۔ ان سے محبت کرنے والا جنتی ہے اور جو ان سے محبت کرتا ہے اس سے جو محبت کرے گا وہ بھی جنتی ہوگا۔
رسول خداؐ اپنے کندھوں مہر نبوت کے اوپر بٹھا کر بازار میں لے جاتے اپنی زلفیں ہاتھوں میں تھما دیتے۔ سات سال سات ماہ سال دن کے عرصہ میں اپنے نانا ؐسے اتنا کچھ حاصل کیا جو عام بچے کے بس کی بات نہ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے جوہر آہستہ آہستہ دنیا کے سامنے ظاہر ہونے لگے۔ ناناؐ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو باباحضرت علی ابن ابی طالبؓ اور ماںحضرت فاطمہؓ سے تربیت حاصل کی۔
امام حسینؓ بیان فرماتے ہیں ایک دن میں نے دیکھا کہ میری ماں حضرت بی بی فاطمہؓ اپنے ایک ایک جانثار مومن کا نام لے کر دعا مانگ رہی ہیں میں نے سوچا میری والدہ اپنے لئے اب دعا مانگیں گی، اب مانگیں گی لیکن دعا ختم ہوگئی اور انہوں نے اپنے لئے کوئی بھی دعا نہ مانگی۔ میں نے عرض کی امیؓ حضور آپ نے اپنے لئے دعا نہیں مانگی تو فرمایا، بیٹا جو مخلوق خدا کے لئے دعا مانگتا ہے خدا جوکہ سینوں کے رازوں سے واقف ہے وہ اس کی دعا کو پہلے قبول فرماتا ہے۔
یہی حسینؓ ابن علیؓ اپنے نانا کے دین پر جب مشکل وقت آیا تو یزید کے مطالبہ بیعت کو رد کرتے ہوئے فرمایا۔ مثلی لایبایع، مثلاً مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرے گا۔
وطن چھوڑنا پڑا چھوڑ دیا کربلا میں تین دن کے بھوکے پیاسے اپنے بیٹے بھائی اصحاب شہید کرادئے پھر بھی اپنے نانا ؐکی امت کی فکر تھی آخری لمحات تک مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھا۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کی قلت کی پرواہ نہ کی حق پر ہونے کے یقین کامل کے ساتھ وقت کی بڑی طاقت یزید سے ٹکڑا گئے اور آج حقیقت میں دنیا میں دو گروہ بستے ہیں یا وہ حسینی ہیں یا پھر یزید ی ہیں۔ آپ نے فرمایا ظالموں کے ساتھ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت افضل ہے۔ آپ نے فرمایا ہر انسان کو اپنے سے افضل سمجھو، ہو سکتا ہے اس کا خدا کے ہاں کیا مرتبہ ہو۔