درباربری امام ؒکمپلیکس کی تعمیر و تکمیل کا وعدہ
محمد ریاض اختر
حضرت بری امام سرکارؒ کی عرس کی تقریبات تین صدیوں بلکہ اس سے زیادہ عرصہ سے جاری رہی تھیں۔ 27 مئی 2005ء کو عرس کی تقریبات کے دوران خود کش دھماکہ ہوا جس میں 30 افراد شہید اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔ زخمیوں میںخواتین اور بچے بھی شامل تھے اس حادثہ کے دو سال بعد تک عرس تقریبات احتشام و عقیدت سے ہوتی رہیں۔2007ء کو فوجی دور میں عرس تقریبات کو سیکورٹی جواز پر تاحکم ثانی پابندی لگا دی گئی ان دنوں دربار بری امام کمپلیکس تیاری آخری مراحل میںہے خیال تھا کہ 2015ء میں تقریبات ایک نئے انداز سے ہوں گی مگر عقیدت مندوں یہ خواہش محض خیال ثابت ہوئی اہل عقیدت کا سوال ہے کہ دہشت گردی کے جواز پر عرس بری امام کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ اﷲ کرم کرے … ہم پر اور ہمارے وطن عزیز پر…!!
مارگلہ کی بلند قامت اور تاحد نظر پھیلتی پہاڑیوں میں نئے بسائے جانے والے شہر اسلام آباد کا اولین تجارتی مرکز آب پارہ مارکیٹ آج بھی اپنی ترتیب‘ مقام اور آمد و رفت کے حساب سے اہمیت کا حامل ہے آب پارہ کے قرب و جوار میں لال مسجد‘ شکر پڑیاں‘ سپورٹس کمپلیکس اور مسجد شہدا کے ساتھ دو مزارات مراکز عقیدت و احتشام ہیں۔ یہاں حضرت عبداللطیف بری سرکارؒ کے والدین سید سخی محمود بادشاہ کاظمیؒ اور سیدہ غلام فاطمہ کاظمیؒ مدفون ہیں۔ دور دراز سے آنے والے عقیدت مند ہر روز صبح و شام یہاں دعاؤں کے زمزے بلند کرتے دیکھے جاتے ہیں عام دنوں کی نسبت جمعرات اور جمعۃ المبارک کو سلام عقیدت پیش کرنے والوں کا رش قابل ذکر ہوتا ہے یہ وہ آغوش ہے جہاں پلنے والا بچہ آگے چل کر روحانیت و ولایت کے اس درجے پر فائز ہوا جہاں انہیں بری امام سرکارؒ کے لقب سے یاد رکھا اور پکارا جانے لگا۔ حضرت بری امامؒ کے مزار پر حاضری دینے والے بعد میں یا پہلے ان کے والدین کی درگاہ میں حاضری کیلئے آب پارہ مارکیٹ کا ضرور رخ کرتے ہیں…حضرت بری امام سرکارؒ کا عرس مبارک ہر سال حشمت و احتشام سے منایا جانا پوٹھوہار کی روایت ہے۔جس میں ہر سال آزاد کشمیر ‘ گلگت و بلتستان سمیت چاروں صوبوں بلکہ بیرون ممالک سے عقیدت مند ان ایام میں اسلام آباد پہنچتے جہاں عرس کی مناسبت سے تین روز تک تقریبات جاری رہتیں۔ اختتامی دعا کے بعد بھی ہفتہ دس دن تک یہاں عرس جیسی رونق دیکھنے کے قابل رہتی۔تاہم چند سال قبل 27مئی2005کو ہونے والے خود کش بم دھماکہ اور اس کے نتیجے میں متعدد افراد کی شہادت کے بعد ایک تو اعلانیہ عرس منانے کا سلسلہ روک دیا گیا دوسرے ایوان صدر کی سیکیورٹی کے پیش نظر یہاں عوامی اجتماع منعقد کرنے کا پروگرام تا حکم ثانی روک دیا گیا ۔ اب ہر سال مئی کے آخری ہفتے میں عقیدت مند سلام عشق اور سلام محبت و عقیدت پیش کرنے حاضری کیلئے اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں۔تیسری بات جو عقیدت پسندوں کے لئے باعث تکلیف ہے وہ حضرت امام بری سرکارؒ کے مزار کی جدید تعمیر اور دربار کمپلیکس کی تکمیل میں غیر ضروری تاخیر ہے حکومتیں بدلتی رہیں مگر دربار کمپلیکس کی تعمیر کاوعدہ تشنہ تکمیل نہ ہوسکا۔ یہاں نواز شریف ‘ ظفراللہ جمالی‘ چودھری شجاعت‘ شوکت عزیز‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف وزارت عظمیٰ کے عہدے پر مامور رہ کر تاریخ کا حصہ بن گئے مگر کمپلیکس کی تکمیل اور افتتاح آج بھی کئی پردوں کی دبیز تہہ میں پوشیدہ ہے خوش قسمتی سے اولیاء کرام سے عقیدت رکھنے والے میاں نواز شریف آج بھی وزیراعظم ہیں لوگ چاہتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غیر ضرروی تاخیر کا نوٹس لے کر دربار کمپلیکس کا فوری افتتاح کریں اور ساتھ ساتھ عرس بری سرکارؒ کے انعقاد میں تعطل کے کانٹے ختم کروائیں۔
حضرت سید شاہ عبدالطیف مشہدی کاظمی المعروف امام بری سرکارؒ کا عہد مغل بادشاہ جہانگیر کے دور حکمرانی سے قریب ہے آپؒ کی تبلیغ سے سینکڑوں ‘ ہزارں بلکہ لاکھوں دلوں میں اسلام کی شمع فروزاں ہوئی آپ کا سن پیدائش 1617ء عیسوی اور 1026ء ہجری ہے۔ جائے ولادت ہے چولی کرسال (چکوال)… آپ کی ابتدائی تعلیم کا بیڑہ خود آپ کے والد گرامی سید سخی محمد بادشاہ کاظمیؒ نے اٹھایا۔ فقہ و حدیث اور دیگر علوم کے لئے آپ کو نجف اشرف ‘ کربلا اور مشہد سمیت مختلف ممالک کی ممتاز ترین درسگاہوں کا رخ کرنا پڑا
مشہور روایت
٭۔ آپ نے تقریباً 4 صدیاں قبل دعا دی اور بتایا کہ نور پور پوٹھوہار خطہ میں فرزندان توحید کی توجہ کا اہم مرکز بنے گا آپ کی پیشن گوئی ثابت ہوئی اور ایوبی دور میں جنگل و بیابان خطے میں نیا شہر دارالحکومت اسلام آباد بنا
٭۔ چور پور نامی علاقے سے گزرنے والے قافلے لوٹ لئے جاتے تھے اس لوٹ مار اور چوری و ڈکیتی نے خطہ میں علاقہ کا نام چور پور مشہور کردا آپ کی برکت‘ عبادت اور ریاضت کے باعث یہ چور پور ’’نور پور‘‘ میں تبدیل ہوا آج عقیدت مندوں کے لئے یہ نورپور شاہان کہلاتا ہے