مولانا محمد اعظمؒ آف منجوال شریف آزاد کشمیر؎
ساجدہ جاوید۔ ایم اے، ایم ایڈ
وادیٔ بناہ حسن بے پناہ کی حامل کشمیر کی ممتاز وادیوں میں شمار ہوتی ہے۔جہاں وادی کے شمال میں واقع دامن کوہ میں منجوال شریف ہے۔منجوال شریف کے اعظم رجال میں مولانا محمد اشرف، سید خادم حسین شاہ، مولودی حکیم عبدالغفور، ماسٹر فقیر محمد، شیخ عبدالعزیز، ماسٹر بہادر علی خان، مقدم سید محمد اور مقدم سید بگا کا شمار ہوتا ہے۔ مقدم بگا جاٹ برادری کے مشہور چوہدری تھے جو سیاسی، سماجی پس منظر میں صوبہ جموں کے معروف شخصیات میں سربر آور دہ تھے ۔ مقدم بگا کے ہاں 1921ء میں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محمد جان رکھا گیا۔ پہلے فرزند محمد اکبر تھے جو صوفی محمد اکبر کے نام سے صوفی منش شخصیت تھی۔ محمد جان کو دینی تعلیم کے لئے مولانا محمد اشرف اصغر کی خدمت میں بھیجا گیا۔ مولانا نے محمد جان کا نام تبدیل کرکے محمد اعظم کے نام سے مدرسہ میں داخل کرلیا۔
مولانا محمد اعظم کی والدہ محترمہ محمد اعظم کو شدید بیمار ہونے پر وادیٔ بناہ کی معروف خاتون درویش مائی طوطیؒ کی خدمت میں برائے دعا لائیں مائی صاحبہ نے بچے کے جسم پر اپنے ہاتھ سے اپنے چولہے کی راکھ ملی اور اپنا لعاب دہن محمد اعظم کے منہ میں ڈالہ اور فرمایا یہ بچہ بڑا ہو کر ممتاز عالم بنے گا ۔اور اس کا خاندان علمی، سیاسی اور سماجی سطح پر مقتدر اور محترم ہوگا۔ مائی صاحبہ کی دعا اور پیشن گوئی کا آپ کی والدہ نے گھر میں ذکر کیا تو آپ کے والد محترم مقدم بگا نے اپنے فرزند کو عالم دین بننے کیلئے مدرسہ ڈھیری صاحبزادیاں میں مولانا محمد اشرف کے پاس داخل کرادیا۔ یہاں آپ نے قرآن و حدیث، فقہ، عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی اور استاد کی زندگی میں ہی مسند سنبھال لی۔
مولانا محمد اعظم زمیندار تھے۔ اپنی اراضی خودکاشت کرتے اور اپنی زمین پر مسجد تعمیر کی اور تا صحت و حیات اعزازی امامت و خطابت دینی تعلیم و تدریس کا فریضہ بلا معاوضہ ادا کرتے رہے۔ وعظ و خطاب ساری زندگی مجلسوں، جلسوں، مسجدوں میں بلا معاوضہ حتیٰ کہ سفر خرچ بھی برداشت کرتے ۔ریاست جموں و کشمیر ہندوستان کی 5 بڑی ریاستوں میں شمار ہوتی تھی۔ تاج برطانیہ نے مالی ہوس کا مظاہرہ کرتے ہوئے 75 لاکھ نانک شاہی سکوں میں مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ بیچ دی تو سکھ حکمران کے ہاتھوں مسلمانوں کا جینا دوبھر ہو گیا۔ ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے عہد میںآزادی کی تحریک میں مولانا محمد اعظم نے مسلم بیداری میں بھرپور کردار ادا کیا۔
مولانا محمد اعظم امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری سے سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت ہوئے ۔محدث علی پوری نے تحریک پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کا بھرپور ساتھ دیا تو اپنے خلفاء متوسلین کو بھی اس کی بھرپور تلقین کی۔ چوہدری غلام عباس خاں اور مولانا محمد اعظم نے کشمیر میں اپنے مرشد کے حکم پر بھرپور جدوجہد کی۔ جہاد آزادی کشمیر میں مولانا محمد اعظم کا شمار مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خاں کے انتہائی با اعتماد ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ مولانا محمد اعظم نے حب رسولؐ اور اتباع سنت میں زندگی بسرکی ۔اور تمام عمر فکر اقبال کے مطابق عمل پیرا رہے۔ آپ الحاق پاکستان نظریہ کے مبلغ اعظم تھے۔
1990ء میں مولانا محمد اعظم پر فالج کا حملہ ہوا۔ لاہور میں میاں محمد شریف مرحوم نے اتفاق ہسپتال میں علاج کا اہتمام کیا۔ مئی 1999ء کی جس شب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا، اسی شب جمعۃ المبارک مولانا محمد اعظم نے کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کی۔
جمعۃ المبارک کے دن بعد نمازجمعہ سرزمین منجوال شریف میں آپ کی نماز جنازہ آپ کے فرزند اکبر نے پڑھائی اور آپ کو اپنے آبائی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا ۔ 29 مئی کا دن آپ کے یوم و وفات پردعائے مغفرت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ آپ کے فرزند اکبر مولانا محمد شفیع جوش ممبر اسلامی نظریاتی کونسل آپ کے صدقہ جاریہ کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔