مختلف نوعیت کے جرائم اخلاقی پستی کی وجہ سے جنم لیتے ہیں
احمد جمال نظامی
ہمارے ہاں کئی امراض ایسے بھی ہیں جو مختلف نوعیت کے جرائم اور اخلاقی پستی کی وجہ سے جنم لیتے ہیں ‘ان میں سے ایک مرض ایڈز کا ہے، جس کا براہ راست تعلق جرائم اور اخلاقی پستی سے ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کے شکار افراد کی اکثریت علاج معالجے سے بھی پرہیز کرتی ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ مرض اپنا وجود رکھتا ہے اور اس ضمن میں جب بھی کوئی خبرسامنے آتی ہے تو وہ بڑے سکینڈل کی صورت میں سامنے آتی ہے اور اس کے متاثرین کی تعداد بھی درجنوں میں ہوتی ہے۔چند سال قبل فیصل آباد میں بھی ایڈز کے درجنوں مریضوں کا انکشاف ایک این جی او کی رپورٹ کی صورت میں ہوا تھا جس کی تصدیق اس وقت کے سٹی ڈسٹرکٹ ناظم رانا زاہد توصیف نے بھی کی تھی۔ چنیوٹ کے نواحی چک 127بھٹی والا میںایڈزکے شکار زیادہ تعداد میں بچے اور خواتین ہیں، بھٹی والا میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران 360علاقہ مکینوںمیں سے 48افراد میں ایڈز کے مرض کا انکشاف ہوا کہ ان کے سیمپل پی سی آر لاہور بھجوائے گئے جہاں ڈائریکٹر ایڈز پروگرام ڈاکٹر عدنان کے مطابق 30لوگوں کی رپورٹ میں پی سی آر پازیٹوآئی ہے۔بھٹی والا میں دو خاندانوں کے 17افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ علاقہ کے کچھ بچے اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد لاہور سروسز ہسپتال میں زیر علاج بھی ہیں۔ الائیڈ ہسپتال فیصل آباد سے چند بچوں اور خواتین کے ایڈز میں مبتلا ہونے کی تصدیق کی گئی ہے ‘ ایک ہی خاندان کے تین بہن بھائیوں کے ایڈز میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا ‘ ذرائع کے مطابق بھٹی والا کے علاقہ مکینوں کے مطابق گاﺅں کا رہائشی ایک شخص دبئی سے ایڈز میں مبتلا ہو کر آیا اور اس کی وجہ سے گاﺅں میں ایڈز پھیلا جبکہ رہی سہی کسر علاقہ میں موجود عطائیوں نے نکال دی جو ایک ہی انجیکشن استعمال کر تے رہے اور اس طرح سے یہ مرض پھیل گیا۔ ایک ایچ آئی وی پازیٹو مریض کابلیڈ یا انجیکشن کی سرنج وغیرہ دوسرے افراد کو لگانے سے یہ مرض پھیلتا ہے اور چنیوٹ کے نواحی گاﺅں بھٹی والا میں بھی صورتحال شائد اس سے مختلف نہیں رہی۔ محکمہ صحت کی جانب سے انقلابی اصلاحات کے بڑے بڑے نعرے لگائے جا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود عطائیت کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ اس ضمن میں محکمہ ہیلتھ اور متعلقہ ضلعی انتظامیہ کا کردارروایتی اجلاسوں اور اخباری پریس ریلیزوں سے زیادہ کا نہیں ہو تا جس کے نتیجہ میں مسائل جنم لیتے ہیں اور لے رہے ہیں۔دوسری طرف امر واقعہ یہ بھی ہے کہ تقریبا ایک سال قبل فیصل آباد میں ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے ماہانہ اجلاس کے دوران ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بلا تفریق اس نقطہ پر سراپا احتجاج بنے تھے کہ فیصل آباد میں جنرل بس سٹینڈ کے قریب واقع ہوٹلوں کی اکثریت نے قحبہ خانوں کی شکل اختیار کر لی ہے اور وہاں پولیس منتھلی وصول کرنے کے علاوہ کوئی کردار ادا نہیں کرتی۔ بھٹی والا میں بھی اہل علاقہ کے مطابق ایک شخص دبئی سے ایڈز کے مرض میں مبتلا ہو کر آیا اور اس سے یہ مرض علاقہ میں پھیل گیا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب جن سے اہل علاقہ نے اصلاح و احوال اور طبی امداد کا مطالبہ بھی کیا ہے وہ فوری طور پر محکمہ ہیلتھ کے تمام ذمہ داران کو معطل کریں۔ ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ ارباب بست و کشاد کے خلاف بھی فوری کارروائی عمل میں لائی جائے۔ متعلقہ پولیس اہلکاروں اور افسران کو بھی معطل کیا جائے اور فوری طور پر اس کیس کو مدنظر رکھتے ہوئے عطائیت کے خاتمے کے لئے صوبائی سطح سے گرینڈ آپریشن لانچ کیا جائے۔ اس کے علاوہ پولیس کو ٹاسک دیا جائے کہ وہ قحبہ خانوں کو بند کروائے۔ ان کے پیچھے کام کرنے والے گروہوں اور بڑے بڑے مافیا کو بے نقاب کرتے ہوئے قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا جائے۔ اس تلخ حقیقت کو بھی نظرانداز نہ کیا جائے کہ غربت اور افلاس کی وجہ سے بہت سارے لوگ غیرقانونی کاروبار میں ملوث ہونے پر مجبور ہیں جبکہ خواتین کا اغوا اور سمگلنگ کے ساتھ قانون کی کمزور گرفت ایک بڑی وجہ ہے۔ ملک میں غربت، افلاس، یاس اور تقریباً گیارہ کروڑ افراد سے عبارت آبادی سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے اور ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے جن مسائل کا شکار ہے اس وجہ سے بھی ایڈز جیسے مرض پھیل رہے ہیں۔ حکومت ایسے امراض جیسے کہ ایڈز جن کا برا ہ راست تعلق جرائم اور اخلاقی پستی سے ہے‘ کے خاتمے کے لئے کم از کم سوچ بچار شروع کرے۔