چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہئے
عنبرین فاطمہ
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے پرائیویٹ سیکٹر نے تعلیمی میدان میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھے ہیں۔جہاں بہت سارے پرائیویٹ تعلیمی ادارے اس وقت بہترین کارکردگی کے باعث والدین کی اولین چوائس بنے ہوئے ہیں اس میں ”یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈٹیکنالوجی “قابل ذکر ہے۔1991میں انسٹی ٹیوٹ آف لیڈرشپ اینڈمینجمنٹ کے نام سے اپنے کام کاآغازکرنے والایہ ادارہ آج یوایم ٹی بن کرجنوبی ایشیاءکے دس بہترین اداروں میں شمارہوتاہے۔یوایم ٹی کی بنیاد میں خرم مراد،محسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیرخان،پروفیسرخورشیداحمدجیسے مفکرین اورمدبرین کاوژن شامل ہے جس کوریکٹریوایم ٹی ڈاکٹرحسن صہیب مراداپنی خدادادصلاحیتوں کے بل بوتے پرآگے کی جانب لے کربڑھ رہے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں یوایم ٹی وہ تعلیمی ادارہ ہے جوکوالٹی ایجوکیشن کی وجہ سے اپنی پہچان رکھتاہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یوایم ٹی کے تمام سکول وشعبہ جات طالب علموں کو بہترین تعلیمی سہولیات دینے کےلئے نئے نئے کورسز کا اجراءکر رہے ہیں۔”سکول آف بزنس اینڈ اکنامکس“یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈٹیکنالوجی کا وہ سکول ہے جس کاشمار پاکستان کے بہترین بزنس سکولوں میں ہوتاہے اورجس میں طالب علموں کو جدید سہولیات اور کورسز آفر کئے جا رہے ہیں۔اس سکول کی کارکردگی کے حوالے سے ہم نے ڈین آف سکول آف بزنس اینڈ اکنامکس ”ڈاکٹررخسانہ کلیم“ سے بات چیت کی اور جاننے کی کوشش کی کہ مقابلے کے اس دور میں وہ اپنے سکول کو بہتر بنانے کےلئے کس قسم کے اقدامات کر رہی ہیں۔رخسانہ کلیم نے پنجاب یونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے کرنے کے بعد پہلی ملازمت بطور لیکچرر (1983)آزاد جموں کشمیر میں کی اس کے بعد سی او ٹی سکالر شپ پر 1988ءمیں بیرون ملک چلی گئیں یونیورسٹی آف کلاسکو سے اکنامکس میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اسی یونیورسٹی میں واپس آگئیں۔اس کے بعد لاہور شفٹ ہوئیں اور یہاں یونیورسٹی آف لاہور میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر ملازمت کی دو برس کے بعد ایسوسی ایٹ پروفیسر بن گئیں۔اس کے بعد ڈیپارٹمنٹ آف کامرس کو ہیڈ کرتی رہیں ایسوسی ایٹ ڈین بنی اس کے بعد ان کی بہترین کارکردگی کی بناءپران کی پرموشن ہوئی اور عرصہ تین برس سے سکول آف بزنس اینڈ اکنامکس میں بطور ڈین فرائض انجام دے رہی ہیں۔ہمارے ساتھ ہونے والی گفتگو میں رخسانہ کلیم نے جو باتیں کیں ان کا خلاصہ پیش نذر ہے۔
نوائے وقت:مقابلے کی اس فضا میں آپ کی یونیورسٹی کہاں کھڑی ہے؟
رخسانہ کلیم:اس وقت مارکیٹ میں بہت سارے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھرمار ہے اور یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈٹیکنالوجی اس وقت جدید تعلیمی چینلجزکوقبول کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے ہر برس ہمارے تعلیمی نتائج اس بات کے شاہد ہیں کہ یہ تعلیمی ادارہ پرائیویٹ سکیٹر میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھ چکا ہے۔ ہماری یونیوسٹی واحد وہ یونیورسٹی ہے جس کے پاس بیک وقت دو ایکریڈیشن ہیں۔ہمارے پاس تین سوسے زائدفل فیکلٹی ممبرزجبکہ 90کے قریب پی ایچ ڈی اساتذہ موجودہیں۔نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے17ممالک سے طلبہ یہاں زیرتعلیم ہیں۔ہم لوگ باقاعدہ سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کرواتے ہیں انفرادی حیثیت میں طالب علموں کو گائیڈ لائن دیتے ہیں ۔کتابی نالج اہمیت کا حامل ہوتا ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں لیکن عملی نالج کے بغیر ڈگری کا حصول بڑ ی بات نہیں ہوتی۔ہماری یونیورسٹی طالب علموں کو عملی نالج سے بھی روشناس کرواتی ہے۔کوالٹی ایجوکیشن کی وجہ سے اب باہرکی یونیورسٹیاں بھی ہمارے ساتھ الحاق کررہی ہیں۔یونیورسٹی آف میجمنٹ اینڈٹیکنالوجی کا مقابلہ لمز اور آئی بی اے کراچی جیسے تعلیمی اداروں سے ہے۔
نوائے وقت:آپ سمجھتی ہیں کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئی تعدادسے تعلیمی معیار بہتری کی جانب جا رہا ہے؟
رخسانہ کلیم:والدین تعلیم کے معاملات میں خاصے باشعور ہو چکے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بچے کی تعلیم کےلئے ایسے تعلیمی ادارے کا چناﺅ کیا جائے جس کی مارکیٹ ویلیو زیادہ ہو جہاں جدید تعلیمی سہولیات میسر ہوں تاکہ ان کا بچہ مقابلے کی دوڑ میں آگے نکل سکے۔اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تعداد میںخاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔میں باقی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی کارکردگی کی بات نہیں کروں گی بس اتنا کہوں گی کہ یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈٹیکنالوجی نے اپنا تعلیمی معیار بہتر بنانے کےلئے مسلسل ایک لائحہ عمل اختیار کر رکھا ہے اور پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے میں اس یونیورسٹی کا نام قابل ذکر ہے۔باقی یونیورسٹی لیول پر پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کا مکمل چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے اور کچھ پیرامیٹرز ہونے چاہیں جن کو فالو کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور فالو نہ کرنے والوں کی جواب طلبی کی جائے اور سالانہ بنیادوں پر دیکھا جانا چاہیے کہ کونسا پرائیویٹ تعلیمی ادارہ چلنے کے قابل ہے تاکہ مارکیٹ میں موجود دیگر معیاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہ لگے۔
نوائے وقت:ہم لوگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں آج بھی اتنا پیچھے کیوں ہیں؟
رخسانہ کلیم:پوری دنیا میں تعلیمی میدان میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے ہمارے ہاں جو سب سے بڑی خامی ہے جس پر سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو حد درجہ توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ہے ریسرچ۔ریسرچ کے میدان میں پاکستان دوسرے ملکوں کی نسبت خاصا پیچھے ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
نوائے وقت:آپ کے ادارے سے ڈگری لینے کے بعدطالب علموں کو کس طرح سے ملازمت کےلئے متحرک کیا جاتا ہے؟
رخسانہ کلیم:ہمارا ادارہ جاب فئیر کرواتا ہے کیرئیر سروس ورکشاپ کروائی جاتی ہیں۔مختلف انڈسٹریز کے لوگوں کو بلوا کر ان سے طالب علموں کی براہ راست ملاقات کروائی جاتی ہے۔اس میں طالب علموں کو ملازمتوں کے نہ صرف پرکشش مواقع میسر آتے ہیں بلکہ بڑی بڑی انڈسٹریز کے نامور لوگوں سے ملنے کا موقع بھی ملتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے طالب علم پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ہر جگہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں اور یونیورسٹی آف مینجمنٹ ٹیکنالوجی کا نام روشن کر رہے ہیں۔
نوائے وقت:ہمارے ہاں ایک بڑا طبقہ تعلیمی شعور سے نا بلد ہے اس کو کیسے متحرک کیا جا سکتا ہے؟
رخسانہ کلیم:گورنمنٹ کو چاہیے کہ وہ غریب والدین کو تعلیمی شعور سے آگاہی کےلئے باقاعدہ مہم چلائے ۔کیونکہ غریب والدین کا واحد سہارا ان کی اولاد ہوتی ہے جو سارا دن چھوٹے موٹے کام کرکے شام کو گھر چند پیسے لاتے ہیں اب اگر ان سے کہا جائے کہ اپنے بچے تعلیمی اداروں میں بھیجیں تو وہ بالکل نہیں مانیں گے۔اس لئے گورنمنٹ کو چاہیے کہ وہ پلاننگ سے ٹھوس اقدامات کرے ۔
نوائے وقت:تعلیمی معیار کی بہتری کس طرح ممکن ہے؟
رخسانہ کلیم:ایک تو تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیا جائے اورگورنمنٹ تعلیم کو ترجیحی بنیادوں پر رکھے۔یونیورسٹی لیول پر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے گائیڈ لائن دے رکھی ہے جس کو بہتر انداز میں فالو کیا جا رہا ہے لیکن پرائمری لیول سے سکینڈری کا تعلق ایچ ای سی سے نہیں ہے اس کےلئے منسٹری آف ایجوکیشن کی ذمہ داری بنتی ہے۔
نوائے وقت:کسی بھی تعلیمی ادارے کے انتخاب میںکن باتوں کا خیال رکھا جانا چاہیے؟
رخسانہ کلیم:ادارہ مارکیٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے تعلیمی معیار بین الاقوامی سطح کا ہونا چاہیے جہاں طالب علموں کا فیوچر سیکیور ہو ایسے تعلیمی ادارے کا انتخاب کریں اور بچے کے مستقبل پر کبھی بھی سمجھوتا نہ کریں۔
نوائے وقت:اب ہر دوسرا پرائیویٹ ادارہ ایم بی اے کی ڈگری دے رہا ہے اس کی وجہ سے بزنس کی ڈگری دینے والے معیاری اداروں کو کتنا فرق پڑا ہے؟
رخسانہ کلیم:بزنس کی ڈگری دینے والے معیاری اداروں کو کوئی فرق نہیں پڑا لیکن ہاںاتنا ضرور ہے کہ گلی محلوں میں ایم بی اے کی ڈگری دینے والے تعلیمی ادروں کا چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے ان کی کارکردگی کو چیک کرنے کے بعد ان کے مزید چلنے نا چلنے کا فیصلہ ہونا چاہیے تاکہ جو معیاری نتائج نہیں دے رہے ان کوبند کیا جائے۔
نوائے وقت: یوایم ٹی کے سکول آف بزنس اینڈاکنامکس کے فیوچرپلان کیاہیں؟
رخسانہ کلیم: سکول آف بزنس اینڈاکنامکس یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈٹیکنالوجی نے صرف ایک ڈگری پروگرام ایم ایس مینجمنٹ سے اپنے کام کاآغازکیاتھالیکن آج باقائدہ آٹھ ڈگری پروگرام کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیںجن میں پی ایچ ڈی کے دو پروگرام شامل ہیں ۔ایک پی ایچ ڈی مینجمنٹ میں کروارہے ہیں جبکہ آنے والے کچھ ہی دنوں تک ہم شماریات میںپی ایچ ڈی آفرکرنے جارہے ہیں۔دوسری اہم بات یہ کہ ہم نے اپنے بی بی اے پروگرام کی ای پاس E-Pasسے ایکریڈیشن حاصل کرنے کے لےے بھی درخواست دے رکھی ہے جس سے یوایم ٹی کے بی بی اے پروگرام کی اہمیت بڑھ جائے گی۔تیسری بات یہ کہ ہم پورے سکول میں جدیدریسرچ کوپروموٹ کرنے کے لےے ریسرچ کاکلچرعام کررہے ہیں،اپناایک ریسرچ جرنل بھی شروع کیاہے جبکہ ہماری فیکلٹی دنیابھرکے تحقیقی مجلوں،رسائل وجرائد میں اپنی ریسرچ شائع کروارہی ہے۔