مولانا ظفر علی خان اور مجید نظامی
عزیز ظفر آزاد
پورے عالم اسلام کی طرح ملت پاکستانیہ بھی آج کل تنزل، نااتفاقی اور ناامیدی کے دور سے گزر رہی ہے جس کے باعث نسل نو بُری طرح ابہام کا شکار ہے مگر ہمارا ماضی بڑا شاندار، ہماری روایات جاندار اور ہماری تاریخ ایسے عظیم المرتبت مشاہیر سے عبارت ہے جن میں سے ہر ایک مکمل طرز حیات کا مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ تحریک پاکستان ایک بلند پایہ سپوت مولانا ظفر علی خان ہیں جن کی زندگی ہمہ جہت اور شخصیت ہشت پہلو ہے۔ مولانا ظفر علی خان مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس 1906ءمیں شامل ہو کر اس کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ آپ انگریزی اردو عربی فارسی کے علاوہ دیگر زبانوں کے فاضل عالم ہونے کے ساتھ یک انداز مقرر تھے۔ مولانا ظفرعلی خان واجب الاحترام سیاستدان ، قادر الکلام شاعر و ادیب ہونے کے ساتھ صحافت کی اس بلندی کو پہنچے کہ آپ کو بابائے صحافت مانا جاناجاتا ہے ۔آپ کا اخبار ”زمیندار“ مسلمانان ہند کا ترجمان اور ان کے عقائد کا محافظ گردانا جاتا تھا۔ آپ زندگی کے جس میدان میں بھی قدم رنجاں ہوئے اس میں نمایاں کارنامے سرانجام دیتے ہوئے صف اول میں نظر آئے۔ انہیں اپنی قوم و ملت سے محبت ہی نہیں عشق تھا۔ آپ جرا¿ت و جلالت کا ایک پہاڑ تھے۔ ایک طویل سیاسی اور صحافتی زندگی پھر شاعر اور ادیب مگر نیک سیرت، پاک باز پوری زندگی میں کہیں کوئی الزام ہے نہ دامن پر کوئی داغ۔ تحریک پاکستان کا ایک ایسا عظیم کردار جس کے بغیر تحریک حریت کی تاریخ نہ مکمل رہتی ہے۔ حضرت قائداعظم مولانا ظفرعلی خان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر میرے پاس مولانا ظفرعلی خان جیسے چند رفقاءمزید ہوتے تو میں اس برصغیر میں ایک عظیم انقلاب برپا کر پاتا۔ مولانا نے اپنے اخبار زمیندار کو مسلم لیگ کی آواز اور مسلمانانِ ہند کی پکار میں بدل دیا۔ مولانا کی بے باک تحریر کے عوض زمیندار اکثر بند ہوتا، کثیر جرمانے ہوتے اور مولانا ظفرعلی خان کو بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتیں۔ جہاں تک اخبار کی بندش اور جرمانہ کا مسئلہ تھا تو اس کی بحالی اور کامیابی کےلئے صرف ہندوستان کے مسلمان ہی بے چین نہیں بلکہ دوسرے ممالک افغانستان اور ترکی تک سے چنداں آ جاتا تاکہ مسلمانوں کی یہ صدائے حریت کسی صورت کسی قیمت بند نہ ہو پائے۔ پھر مولانا کے مزاج سے برصغیر کی ہر جیل شناسا ہو چکی تھی۔ آپ کو جب گرفتار کرنے کوئی آتا تو بہادروں کی طرح جانے کو تیار نظر آتے۔ آپ نے بارہ برس قید و بند کی اذیتیں بڑی شان اور عزم کے ساتھ برداشت کیں۔
حضرت مولانا ظفرعلی خان اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، تحریک تھے۔ آپ نے کئی انجمنوں کو تخلیق کیا ہے، بےشمار تحریکیں چلائیں بلکہ ہندوستان میں چلنے والی ہر مسلم تحریک کے روئے رواں نظر آتے ہیں۔ تحریک خلاف ہو یا تحریک مسجد شہید گنج مولانا کا پُرجوش اور پُرزور کردار ناقابل فراموش نظر آتا ہے۔ آپ نے جہاں مسلمانوں کے حقوق کےلئے تحریکیں چلائیں وہاں مسلمانوں کے خلاف پنپنے والی زوردار تحریکوں اور حکمرانوں کے اقدامات پر ردعمل اسی پر زور، جذبہ اور ولولوں سے پیش کرتے دکھائی دیے۔ مصر، بلقان اور طرابلس پر برطانیہ کے مسلم کش اقدامات کے خلاف ظفرعلی خان کی شعلہ نوائی کی تپش وہاں کے ایوانوں تک محسوس ہوتی۔ افغانستان کے بادشاہ کی بحالی کےلئے لاہور شہر میں ایک لاکھ نفوس کا اجتماع اس دور میں کرنا مولانا ظفرعلی خان کے سوا کسی دوسرے کے بس کی بات نہیں تھی پھر ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانان ہند کو دوبارہ ہندو ہونے پر مجبور کرنے کے لئے سنگٹھن اور شدھی کی ہندو تحریکوں کا منہ توڑ جواب بڑے عزم و استقلال سے دیا۔ پھر قیام پاکستان کے مخالفین سرخ پوش تحریک کے جواب میں مولانا ظفرعلی خان نے نیلی پوش تحریک کھڑی کر ڈالی۔ بلاشبہ آپ ملت اسلامیہ ہند کی آبیاری کےلئے ایک باغبان اور ان کے عقائد کی حفاظت کےلئے ایک جری سالارکی حیثیت سے تاریخ میں زندہ و پائندہ رہیں گے۔
بابائے صحافت کی عظیم جدوجہد اور شخصیت کے حوالے سے امامِ صحافت جناب مجید نظامی ہمیشہ خیر و برکت کے الفاظ سے نوازتے۔ جناب مجید نظامی فرماتے تھے کہ تحریک پاکستان میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانان ہند کو چند بلند پایہ رہنما اور صحافی عطا فرمائے ان میں مولانا ظفر علی خان سرفہرست ہیں، ان کا اخبار تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کا ترجمان تھا۔ مولانا ظفر علی خان 1906ءمیں مسلم لیگ کے قیام میں بھی شامل تھے اور 1940ءمیں مسلم لیگ کے اس تاریخی جلسے میں بھی نمایاں نظر آئے جس میں باقاعدہ پاکستان کا مطالبہ کیا گیا بلکہ حضرت مولانا نے قرارداد لاہور کا اردو ترجمہ کیا۔ آپ میں ترجمے کی خوبی بہ درجہ اتم پائی جاتی تھی۔ کوئی بات سُن کر اس کا فوری طور پر فی البدیہہ سو فیصد ترجمہ کر دیتے تھے۔ مجید نظامی صاحب نے فرمایا کہ دراصل صحافت بڑا مشکل پیشہ اور کاروبار ہے مگر مولانا نے بڑی مہارت اور کامیابی سے یہ کام کیا۔ آپ بڑے وجیہہ اور خود شکل شخصیت کے مالک تھے۔ میں نے انہیں باغ جناح میں واک کرتے ہوئے دیکھا آپ حضرت قائداعظم کے بااعتماد رفیق اور دست راز تھے۔ تحریک پاکستان کی کامیابی میں ان کا کردار بڑا اہم اور قابل رشک ہے۔ قبلہ مجید نظامی اکثر فرماتے کہ مولانا ظفرعلی خان کےلئے میرے دل میں محبت و احترام اس طرح ہے جیسا کہ میرے برادر اکبر جناب حمید نظامی کا مقام ہے۔ آپ سچے اور بلند پایہ عاشق رسول تھے۔ نظامی صاحب مولانا ظفر علی خان کے نعتیہ اشعار اکثر پڑھا کرتے تھے خصوصاً یہ قطعہ تو نظریہ پاکستان کے حلف نامے میں شامل کرایا گیا۔
نماز اچھی، حج اچھا، روزہ اچھا اور زکوة اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو ہی نہیں سکتا
نہ کٹ جاﺅں میں جب تک خواجہ یثرب کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا