اغوا کے بعد2 نوجوان قتل
احمد جمال نظامی
آپ کرائم کی جتنی بھی کہانیاں پڑھ لیں یا پھر اس پر ڈاکومنٹریز ٹی وی سکرین پر دیکھ لیں، ہماری پولیس جتنی بھی غفلت شعار اور رشوت خور ہی کیوں نہ ہو، جرم پھر بھی نہیں چھپتا اور ہر جرم کی داستان کا انجام کسی نہ کسی انداز میں مجرم کے گرد قانون کا گھیرا تنگ ہونے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کرائم سٹوریز کی تشہیر سے بہت سارے منفی پہلو بھی سامنے آتے ہیں جیسے اکثر جرائم کی وارداتوں کے بعد مجرم کسی فلم یا ٹی وی ڈرامہ سے متاثر ہو کر وہی انداز جرم استعمال کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ کبھی قانون کی گرفت میں نہیں آ سکیں گے لیکن جرم جرم ہوتا ہے اور اس سے کبھی بھی وہ ثمرات حاصل نہیں کئے جا سکتے جس کو ایک مخصوص انداز میں جنون کی کیفیت کے اندر مجرم دیکھ رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا حق بجانب ہے کہ اگر کوئی کرائم سٹوری الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کی صورت میں سامنے آئے تو اس کا مقصد صرف اور صرف اس حقیقت کو آشکار کرنا ہوتا ہے کہ جرم ایک نہ ایک دن بے نقاب ضرور ہوتا ہے اور مجرم اپنے جرم کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی کو تباہ و برباد کر بیٹھتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ہمارے ہاں جرائم کی نئی سے نئی ایسی وارداتیں سامنے آ رہی ہیں جن کے ذریعے ملزمان خود کو قانون کے کٹہرے سے دور رکھنے کی خاطر ڈراموں اور فلموں کے افسانوی انداز کو دہراتے ہیں اور پھر قانون کی گرفت میں آنے کے بعد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہمیشہ کے لئے حیرت و یاس کی تصویر بن کر رہ جاتے ہیں۔ ایسا ہی واقعہ ہفتہ رفتہ کے دوران فیصل آباد میں پیش آیاجب تھانہ جھنگ بازار کے علاقہ پرتاب نگر گلی نمبر4 کے رہائشی رکشہ ڈرائیور جاوید اختر نے پولیس کو اطلاع دی کہ اس کا بیس سالہ بیٹا رضوان جاوید ایک فرنچائز فون کمپنی میں کام کرتا ہے اور گزشتہ روز سے اپنے ساتھی ملازم یٰسین جو کہ ٹول ٹیکس ستیانہ روڈ کا رہائشی ہے کے ہمراہ سرگودھا گیا۔ مقتول کے والد کے مطابق اس کا بیٹا اپنے دوست کے ساتھ چک 33ج۔ب جنوبی کے رہائشی عمرغفور اور کاشف کے ساتھ سرگودھا گیا ۔ جس پر جھنگ بازار پولیس نے تفتیش شروع کر دی اور مقتولین کے موبائل فونز کی لوکیشن اور کال ریکارڈ چیک کرنے شروع کر دیئے۔ دونوں مقتول یٰسین اور رضوان کا اپنے گھر والوں کے ساتھ آخری رابطہ اتوار کے روز ہوا تھا جس کے بعد سے ان کے موبائل فون بند جا رہے تھے۔ لہٰذا جب پولیس نے تفتیش شروع کی تو ان کے سامنے کئی تشویشناک پہلو سامنے آئے۔ مقتولین یٰسین اور رضوان کے اپنی کمپنی کی ایک دوشیزہ کے ساتھ تعلقات تھے۔ ان میں سے مقتول یٰسین نے پہلے سے شادی شدہ ہونے اور دو بچوں کا باپ ہونے کی بناءپر دوشیزہ سے شادی سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد دوشیزہ کا مقتول رضوان کے ساتھ ناطہ چلا اور وہاں سے بھی شادی میں ناکامی پر یہ سارا واقعہ سامنے آیا اور پولیس کو تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ جن ملزمان یعنی عمرغفور اور کاشف کے ساتھ وہ لڑکے لاپتہ ہیں وہ دونوں ملزمان بھی اسی کمپنی سے اسی دوشیزہ کے ساتھ تعلقات کی بناءپر نکالے گئے تھے۔ لہٰذا پولیس نے اپنی تفتیش کا دائرہ کار بڑھایا اور مقتولین کے ٹیلی فون کی آخری لوکیشن دیکھتے ہوئے سرگودھا میں چھاپہ مارا۔ جہاں ملزمان نے زیرتعمیر مکان میں کلہاڑی کے وار کر کے مقتولین کو قتل کیا اور ان کی لاشیں کمرے کی زمین میں دفن کر دیں۔ پولیس نے زمین نرم ہونے پر کھدائی کی اور مقتولین کو برآمد کر لیا۔ جن کی لاشیں فیصل آباد ان کے گھر پہنچنے پر کہرام مچ گیا۔ دونوںمقتولین کو قتل کر کے لاشیں شاپنگ بیگز میں بند کر کے گھر میں ہی دفن کر دیں۔ اغوا کار پولیس کے پہنچنے سے پہلے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جبکہ ان کے رشتہ دار گرفتار کر لئے گئے۔ دونوں کو کلہاڑی کے وار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ اغوا کاروں کے دو قریبی رشتہ داروں کو حراست میں لے لیا گیا۔ پولیس نے دونوں نعشیں قبضہ میں لے کر فیصل آباد پہنچا دیں۔ جہاں پوسٹ مارٹم کے بعد ان کی نعشیں ورثا کے حوالے کر دی گئیں۔ ملزمان کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق مقتول یٰسین کی تین شادیاں ہوئی تھیں جبکہ مقتول رضوان کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی جس کے رشتے کے لئے اس کے گھر میں بات چل رہی تھی اور اس کی موت کی خبر پہنچنے کے بعد علاقے میں بھی سوگ کی فضا قائم ہو گئی۔ تاہم یہ واقعہ بھی اس حقیقت کو آشکار کر رہا ہے کہ جرم کسی بھی نوعیت کا کیا جائے اور اس کے لئے جتنی مرضی مہارت استعمال کی جائے اس کا کوئی نہ کوئی سراغ ضرور باقی رہ جاتا ہے اور ملزم قانون کی گرفت میں آ کر رہتا ہے اور جن دو ملزمان نے دو نوجوانوں کو ایک دوشیزہ کے ساتھ محبت میں قتل کیا وہ بھی آخر کار پولیس کی گرفت میں آ کر رہیں گے اور انہیں عدالت سے عمرقید یا سزائے موت کی سزا سنائی جائے گی۔ جس کے بعد ان کی زندگی بھی ختم ہو کر رہ جائے گی۔ یہ بات کہاوت کے طور پر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی درست ہے کہ قتل کرنے والا دراصل قتل ہوتا ہے جو قتل کیا جا رہا ہو وہ قتل نہیں ہوتا۔ اس واقعہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ لہٰذا ہم سب کو چاہیے کہ کسی رنجش، غم و غصہ یا دشمنی کا بدلہ لینے کے لئے جرم کے راستے کا انتخاب نہ کریں بلکہ انصاف اور قانون کے لئے موجود پلیٹ فارمز پر دستک دیں تاکہ ہم کسی ملزم یا مجرم کا پیچھا کرتے کرتے کہیں خود ملزم اور مجرم نہ بن جائیں۔