یادماضی
ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی
ایک چیف سیکرٹری کی والدہ اور خالہ پنجاب کے ایک شہر میں رہائش پذیر تھیں۔ ایک صبح ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو اندر سے کوئی آواز نہ آئی ایسا لگتا تھا جیسے گھر میں کئی نہیں ،لیکن ایسا ممکن نہ تھا متعدد بار دروازہ کھٹکھٹانے کا عمل دہرایا گیا لیکن دروازہ نہ کھلا کھولا بالآخر دروازہ توڑ دیا گیا، کیا دیکھتے ہیں کہ دونوں عورتوں کو قتل کردیا گیا ہے ۔ انہیں رات کے وقت کسی نے بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ ان کے جسموں سے خون کے فوارے نکلے اور ان کے کمرے کی دیواریں بھی خون سے رنگین ہوگئیں۔ قاتل کا آج تک پتہ نہ چل سکا۔ ان بوڑھی عورتوں سے بھلا کسی کا کیا بگاڑا ہوگا؟ ان کی کسی سے کیا دُشنی ہو گی اور نہ ہی ان کی کسی سے کوئی دشمنی ہوسکتی تھی؟
مجھے جب اس وحشت ناک خبر کا علم ہوا تو میں نے سوچا کہ میں ان کی فاتحہ خوانی اور افسوس کے لیے،چیف سیکرٹری کے پاس جائوں۔میں چونکہ اسی شہر میں ملازمت کرتاتھاان دنوں لاہور میں میرے والد محترم بھی مجھے ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں سارے واقعے سے آگاہ کیا اور ان کے ساتھ جانے کی گزارش بھی کی کہ اس چیف سیکرٹری کو ہم اکٹھے ملتے ہیں۔ والد صاحب نے بھی میرے ساتھ جانے کی فوراً حامی بھر لی ۔ہم دونوں اس آفیسر سے افسوس کرنے کے لئے اس کے دفترروانہ ہوئے۔جونہی اس کے کمرے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ آفیسر اپنی خاتون کے ساتھ گپ شپ لگارہا تھا۔ ہم دونوں کو دیکھ کر وہ پریشان ہوگیااور ایسا صاف عیاں تھا کہ ہمارا کمرے میںداخل ہونے کا اس آفیسر نے بُرا منایا ہے۔ والد محترم اور میں نے اس آفیسر کی والدہ اور خالہ کے لیے فاتحہ خوانی کی،ابھی تک اس کے چہرے پر غصّہ کے آثار صاف دکھائی دے رہے تھے جبکہ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ ابھی اُٹھ جاؤں لیکن ایسا اس لئے نہیں کر سکتا تھا کہ والدِ محترم ہمراہ تھے۔اس کے بعد ہم نے اس واقعہ پراظہار افسوس کیا۔ اس آفیسر کا چہرہ دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ آفیسر اپنے آفس میں ہم باپ بیٹے کو پاکر انتہائی ناخوشگوار موڈ میں ہے،پھر کیا دیکھتے ہیں کہ اچانک وہ آفیسر بگڑ گیا اورانگریزی میں کہنے لگا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ایسے واقعات کو ذہن سے نکال دیا جاتا ہے۔ہمارے معاشرے میں عجیب رواج ہے کہ دوبارہ ایسے واقعات کی یاد دلائی جاتی ہے جو کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ اس کے بعد وہ خاتون جو ہمارے آنے سے قبل اس آفیسر کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھی ہم سے مخاطب ہوکر کہنے لگی: صاحب ٹھیک کہتے ہیں۔ جو حادثات بھلادیئے جاتے ہیں ان کو دوبارہ دہرانے سے انسان ذہنی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔وہ صاحب اس کے بعد خاموش ہوگئے اور چاہتے تھے کہ ہم فوراً سے پہلے وہاں سے چلے جائیں۔ والد صاحب ساری صورت حال کو سمجھ گئے اور مجھے اسی وقت اُٹھنے کا اشارہ کیا۔ چنانچہ ہم باپ بیٹا وہاں سے نکلے۔ والد صاحب کااور میرا بھی یہی تاثر تھا کہ وہ آفیسر عجیب انسان تھا کہ وہ ہر گز ہماری موجودگی برداشت کرنے کو تیار نہ تھا اس کے چہرے سے یہی لگتا تھا کہ اسے نہ ہی اپنی ماں اور خالہ کے حادثے کا کوئی افسوس ہوا اور نہ ہی ان کے بارے میں کچھ سننے کے لیے تیار تھا۔دراصل وہ آفیسر عجیب ترنگ میں تھا۔ چیف سیکرٹری کو ہماراکمرے میں داخل ہونا پسند نہ آیاکیونکہ اس کی نظر میں ہم نے رنگ میں بھنگ ڈال دی تھی۔وہ چیف سیکرٹری جب جواں سال اسسٹنٹ کمشنر تھا جب چیف سیکرٹری بنا تو ایک محفل میں نئے چیف سیکرٹری سے اس کی تلخ کلامی ہوگئی۔ نئے چیف سیکرٹری نے اسے زبردست تھپڑ رسید کیے۔ محفل میں موجود افسران نے دونوں کو چھڑایا۔اس آفیسر کی سروس کا آغازاور سروس کا اختتام بھی تھپڑوں کی بارش سے ہوا۔